
عام انتخابات میں جہاں عوام اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے وہاں دھاندلی کرنے کا مارجن بہت زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رواں سال ہونے والے انتخابات میں 80 ہزار کی لیڈ کو بھی جنبش قلم سے ہار میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم صدر کا انتخابات اسمبلی میں موجود عوامی نمائندوں کے ذریعے ہوتا ہے جس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار حصہ لیتے ہیں۔ یوں صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا مارجن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ تاہم رواں سال 9 مارچ کو ہونےو الی صدارتی انتخابات میں یہ نظارے بھی دیکھنے کو ملے گا جب صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوتی نظر آئے گی۔
صدارتی انتخاب کیلئے پی ڈی ایم اتحاد کی جانب سے آصف علی زرداری صدر کے امیدوار ہونگے جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے حیرت انگیز طور پر محمود خان اچکزئی امیدوار ہونگے۔
تاہم الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دے کر اور ان سیٹوں کو بقیہ جماعتوں میں بانٹنے کے فیصلے سے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ سیٹیں بقیہ جماعتوں کو ملنے سے جہاں وفاق میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائےگی وہیں خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل ) کی حکومت کمزور پڑ جائے گی۔
مزید پڑھیں: انتخابات کے بغیر ن لیگ کو دوتہائی اکثریت دینے کا فارمولا تیار
سنی اتحاد کونسل کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں سے 77 مخصوص نشستیں ہیں جو کہ صدارتی انتخابات میں گیم چینچر ثابت ہو سکتی تھیں کیونکہ اس سے قومی اسمبلی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سنی اتحاد کونسل کو واضح اکثریت حاصل ہو جاتی۔ ایسے میں اگر بلوچستان اسمبلی یا ایم کیوایم کی جانب سے سرپرائز آجاتا تو شاید آصف علی زرداری صدارت کی کرسی پر براجمان نہ ہو پاتے۔
تاہم اب صدارتی الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جسے صرف سپریم کورٹ ہی فوری ایکشن کے ذریعے روک سکتی ہے۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ آنے تک صدارتی الیکشن ملتوی کرنے کے احکامات صادر کر سکتی ہے جس کا پی ٹی آئی ( سنی اتحاد کونسل ) بھی مطالبہ کر رہی ہے۔ تاہم اب تک سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کی جانب سے ایسا کوئی آرڈر نہ آنے سے صدارتی الیکشن میں دھاندلی کا راستہ کھلتا نظر آرہا ہے۔
2 Comments