افغان لڑکیاں تعلیم کیلئے افریقی ممالک کیوں جارہی ہیں؟

افغانستان میں طالبان حکومت کے ٹیک اوور کے بعد سے 18 ستمبر 2021 سے 12 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کیلئے تعلیمی دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اس پابندی کے تقریباً 1000 دن مکمل ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر اظہار تشویش کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مائیگریشن ادارے کے مطابق تقریباً 10 لاکھ سے زائد لڑکیاں اس وقت افغانستان میں تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ تاہم سکول آف لیڈر شپ افغانستان (سولا) اور انٹرنیشنل آگنائزیشن آف مائیگریشن کے درمیان پارٹنرشپ سے افغان لڑکیوں کی تعلیم کی صورت نکالی گئی ہے۔
اس سلسلے میں افریقی ملک روانڈا کو چنا گیا تھا جہاں افغان لڑکیاں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ سال 2023 کے آغاز پر 40 لڑکیوں پر مشتمل پہلا گروپ اس تعلیمی پارٹنرشپ کا حصہ بنا اور اب اس کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں: آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہونے والابلوچستان کا اسرار خان
یہ اگرچہ بارش کا پہلا قطرہ سہی لیکن جس رفتار سے افغان لڑکیاں تعلیمی پابندیوں میں جکڑی جارہی ہیں اس کے برعکس یہ اقدامات بہت کم ہیں۔ سکول آف لیڈر شپ افغانستان کا کہنا ہے کہ انہیں 2000 سے زائد مزید درخواستیں بھی موصول ہو چکی ہیں جو اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ افغان لڑکیاں اپنے بنیادی حق تعلیم کیلئے کوشاں ہیں۔
سولا کی ترجمان نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں حصول علم کیلئے روانڈا آنے والی لڑکیوں نے نئی آنے والی لڑکیوں کو رہنمائی دی اور یوں یہ ایک دوسرے کا سہارا بنتی ہیں جو کہ حوصلہ افزاء بات ہے۔
ایک جانب افغان خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے جس کیلئے وہ افریقی ممالک کا رخ کر رہی ہیں تو وہیں انہیں دفاتر آنے پر پابندی عائد ہے جسکی وجہ سے اگر خواتین چاہیں بھی تو وہ باقی خواتین کے حقوق کیلئے کچھ نہیں کرسکتیں۔
One Comment