
وکلاء تنظیمیں حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے سامنے آگئیں اور تین سو سے زائد وکلاء، بشمول سینئر بار قیادت، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کو حکمران اتحاد کی طرف سے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے "PCO کورٹ” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیں۔
اس حوالے سے عدالتوں کے تمام ججز کے لکھے گئے اوپن لیٹر میں کہا گیا کہ ججز کسی بھی نئی عدالت کا حصہ نہ بنیں نئی عدالت کی حیثیت پی سی او کورٹ جیسی ہو گی نئی عدالت کا جج بننے والے پی سی او ججز سے مختلف نہیں ہوں گے مجوزہ ترامیم کا ڈرافٹ رات کی تاریکی میں سامنے آیا نمبر پورے کرنے والے منتخب نمائندے ڈرافٹ سے بھی ناواقف تھے مجوزہ آئینی ترامیم کو ہماری حمایت حاصل نہیں مجوزہ آئینی ترامیم پر ملک میں موثر بحث نہیں کرائی گئی صرف یہ کہا جا رہا ہے چارٹر آف ڈیموکریسی میں آئینی عدالت کا ذکر ہے آپ ججز نے آئین کے تحفظ کا حلف لے رکھا ہے آپ کے پاس اب موقع ہے کہ اپنا انتخاب کریں کل جب تاریخ لکھی جائے تو اس میں شامل ہو آپ شریک جرم نہیں تھے۔
مزید پڑھیں:63 اے نظرثانی کیس کیا ہے اور اس سے پی ٹی آئی کو کیا خطرہ ہے
یاد رہے کہ شہر اقتدار میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ حکومت اکتوبر کے پہلے ہفتے میں آئینی ترامیم کی مںظوری کیلئے ایک اور کوشش کر سکتی ہے اور اب کی بار حکومت پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
اس حوالے سے حکومت کا اکتوبرکے پہلے ہفتے تک انتظار کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 63 اے کے کیس پر سپریم کورٹ پر نظر رکھے ہوئے ہے جس کی سماعت 30 ستمبر کو ہوگی۔
حکومت پرامید ہے کہ سپریم کورٹ نظرثانی درخواست منظور کر لی گی جس کے بعد پی ٹی آئی یا اپوزیشن اتحاد کی کسی بھی جماعت کے اراکین کو باآسانی ساتھ ملا کر مجوزہ آئینی ترامیم منظور کرا لی جائیں گی۔