اہم خبریںپاکستان

پاکستان میں ایک نئے فوجی آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آرہی

فوجی آپریشن کی اصطلاح ایک بار پھر پاکستان میں عام ہورہی ہے۔ ہفتے کو وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت ہونےوالے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کی منطوری کے بعد سے اس آپریشن کی ضرورت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اس آپریشن پر سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں علی امین گنڈا پور کو ایسے کسی آپریشن کی حمایت نہ کرنے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔
اگرچہ وزیر دفاع اور وزیر قانون اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی بھی آپریشن کو سیاسی سٹاک ہولڈرز سے مشاورت سے بغیر شروع نہیں کیا جائے گا لیکن جس شدت سے اس آپریشن کا مطالبہ اور وکالت کی جارہی ہے وہ اس سوال کو جنم دے رہا ہے کہ نیا فوجی آپریشن کیوں کیا جائے، اس کی ضرورت کیا ہے؟
ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ اب تک کسی علاقے پر عسکریت پسندوں کا باقاعدہ قبضہ تو نہیں ہے لیکن دہشت گرد کارروائیاں عروج پر ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی بڑے فوجی آپریشن کی مخالفت

ماضی میں دہشت گردوں کا نشانہ عام عوام بھی رہی ہے لیکن رواں ہونے والے حملوں میں نشانہ سیکورٹی فورسز ہیں جو کہ اس آپریشن کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال 500 سے زائد سیکورٹی فورسز کے اہلکار ان حملوں کا نشانہ بنے اور رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں بھی تقریباً 250 اہلکار جان کی بازی ہار چکےہیں۔ ان میں سے 70 اموات اپریل میں ہوئیں جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور جلد از جلد ایکشن لیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
آج وزیر اعظم نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہ چند مقاصد کے حصول کیلئے چھوٹے لیول کا آپریشن ہوگا۔ ماضی کے بڑے آپریشن جن میں بڑی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی یہ ویسا آپریشن نہیں ہوگا۔ تاہم اب اس آپریشن کا ہونا ناگزیر ہو گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button