
حکومت پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کااثر زائل کرنے میں ناکامی پر کابل حکومت بارے پالیسی تبدیل کرنا کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک بڑی پالیسی تبدیلی میں، پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بے اثر کرنے میں کابل حکام کی ناکامی کے بعد بین الاقوامی سطح پر افغان طالبان حکومت کے مقدمے کی وکالت یا کوئی اور مدد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، اسلام آباد افغان طالبان کی عبوری حکومت کو اس اقدام میں مزید کوئی خصوصی مراعات نہیں دے گا۔ نگران وزیر اعظم کے گزشتہ دنوں کے بیانات بھی دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کو ظاہر کرتے ہیں،
پاکستان کی اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی کا فوری نتیجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ کم ہو گئے ہیں۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد، پاکستان اس کے اہم حمایتی اور وکیل کے طور پر ابھرا، جس نے عالمی برادری اور اسٹیک ہولڈرز بالخصوص مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ کابل میں نئے حکمرانوں کے ساتھ رابطے میں رہیں۔
افغان عبوری حکومت کے ترجمان کے طور پر کام کرنے کی پاکستان کی پالیسی کو اکثر ملک کے اندر اور باہر سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: غزہ میں ریڈ کراس کے امدادی قافلے پر حملہ
تاہم، اس وقت حکام نے اس نقطہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے اصرار کیا کہ افغان طالبان ایک حقیقت ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
پاکستان نے دیگر علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ کوششیں کیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغان طالبان حکومت کے خلاف پابندیاں ہٹا دی جائیں ۔ اسکے ساتھ افغان طالبان حکومت کے اگست 2021 میں اقتدار پر قابو کے بعد امریکہ کے منجمد کیے گئے فنڈز تک رسائی حاصل ہو۔
اس کے علاوہ پاکستان نے افغان عبوری حکومت کو سہولت فراہم کرنے کے لیے افغانستان کو تجارت اور دیگر سہولیات کی مد میں بہت سی مراعات دیں .لیکن اب حکومت پاکستان نے ان مراعات بارے فیصلے کو بھی دوبارہ سے سوچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستان اپنے دشمنوں کو محفوظ جگہ مہیا کرنے پر افغان طالبان حکومت سے ناراض ہے۔
تاہم، افغان طالبان کی حکومت نے بدھ کو ایک بار پھر واضح کیا عسکریت پسند افغانستان سرزمین دوسرے ممالک پر حملے کرنے کے لیے استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ کابل حکومت کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے مسائل ایک گھریلو معاملہ ہے۔