اگر بھٹو زندہ ہوتے تو کیا فیصل واوڈا سینیٹر ہوتے؟

آج ذوالفقارعلی بھٹو کی 45 ویں برسی منائی جا رہی ہے اور جمہوریت پسند انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ دنوں میں ہونے والے انتخابات میں فیصل واوڈا سندھ سے آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے جبکہ انہیں ووٹ پیپلز پارٹی نے دیئے۔
یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کے فیصل واوڈا اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے اور انہیں طاقتور حلقوں ہی کی مدد سے سینیٹ کی یہ نشست حاصل ہوئی۔ سینیٹ میں فیصل واوڈا کو ووٹ دینے پر نجی میڈیا چینل پر ایک شو کے دوران سینئر صحافی منصور علی خان نے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سے سوال کیا کہ اگر بھٹو زندہ ہوتے تو کیا فیصل واوڈا پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے سینیٹر بن پاتے؟
اس پر مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ اگر بھٹو زندہ ہوتے تو فیصل واوڈا کبھی سینیٹر نہ بن پاتے۔ یہ بات جمہوری حلقوں کیلئے واقعتاً نا قابل قبول نظر آتی ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی جمہوری پارٹی نے اپنے کئی سینئر رہنماؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے فیصل واوڈا کو ووٹ دے ڈالا جو کہ حقیقت میں بہت سبکی کی بات ہے۔
مزید پڑھیں: محسن نقوی ن لیگ حکومت کیلئے خطرہ کیسے ہیں؟
بھٹو کی برسی اور فیصل واوڈا کے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہونے پر رائے دیتے ہوئے صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ آج پیپلز پارٹی ذولفقار علی بھٹو شہید کی45ویں برسی فیصل واوڈا کو سینٹ کا ووٹ دے کر منا رہی ہے، شہید بھٹو کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اِس سے بہتر اور کیا طریقہ ہو گا۔ زندہ ہے جنرل ضیا الحق زندہ ہے تم کتنے ضیاالحق مارو گے ہر پارٹی سے ضیا الحق نکلے گا۔
اس سے قبل بھٹو کی برسی پر صرف انہیں ہی یاد کیا جاتا تھا پر رواں سال پیپلزپارٹی کی اس کاوش کے بدولت ضیاء الحق کے بھی بھٹو کے ساتھ زندہ ہونے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔