پاکستان

پاکستان میں محنت کش طبقہ مزدوری کے کاموں میں دلچسپی کیوں کھو رہا ہے؟

اس کی وجہ سستی یا محنت سے انکار نہیں، بلکہ چند ایسے عوامل ہیں جو اس رحجان کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج انٹرنیشنل لیبر ڈے (Labor Day) یعنی کہ مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

یوں تو اس دن کومحنت کی عظمت اور مزدوروں کی حوصلہ افزائی کیلئے منایا جانا چاہیے لیکن پاکستان میں صورتحال اس سے کچھ برعکس ہے۔

پاکستان میں اب محنت کش طبقہ محنت مزدوری کے کاموں میں دلچسپی کھو رہا ہے۔ اس کی وجہ سستی یا محنت سے انکار نہیں، بلکہ چند ایسے عوامل ہیں جو اس رحجان کا باعث بن رہے ہیں۔

ورلڈ لیبر ڈے (Labor Day) یعنی کہ مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر ہم ایسے چند عوامل پر بات کریں گے جو مزدور پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہا ہے۔

معاشی مشکلات اور کم اجرت:

حکومت پنجاب نے چند ہفتے قبل ہی یہ حکم نامہ جاری کیا کہ اب حکومت کی طرف سے جاری کردہ کم سے کم اجرت کے پیمانے پر ہر صورت عملدرآمد کرایا جائےگا۔

تاہم ابھی ایسا نہیں ہو پا رہا۔ یہاں تک کے کچھ حکومتی اداروں میں بھی اس قانون پر عمل نہیں ہو پا رہا ہے۔

یہی وجہ کے کہ جب کم اجرت کی وجہ سے ایک مزدور اپنے بال بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا پاتا تو اس کیلئے مزدوری کی کشش ختم ہو جاتی ہے۔

اس کے برعکس بھیک مانگنے والا مافیا دن میں کئی ہزار اور مہینہ میں لاکھوں تک بھی کما لیتا ہے جو کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے نوجوان کی آمدن سے بھی کئی زیادہ ہے۔
جب معاشرے میں مزدوری کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور بھیک کی حوصلہ افزائی ہو گی تو مزدور طبقہ محنت سے دور بھاگنے لگے گا۔

حقوق کا فقدان:

دنیا بھر میں حکومتیں مزدورں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

یہاں مزدوروں کے نام پر اگرچہ یونین بنتی ہیں لیکن اس یونین کے سربراہان بھی محنت کش نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ ہوتا ہے۔

یہ طبقہ حکمرانوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، کھاتا پیتا ہے اور لیبر ڈے جیسے موقعوں پر سیمینار منعقد کروا کر بری الذمہ ہوجاتا ہے۔

نتیجتاً مزدور کا جب حکومتی سطح پر کسی طرح کا تحفظ نظر نہیں آتا تو وہ محنت مزدوری ترک کرنے کو سوچنے لگتا ہے۔

ملک کے غیر مستحکم حالات سے متاثرہ مزدور

گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں افراتفری کی صورتحال ہے۔ سیاسی جلسے جلوس، احتجاجی ریلیاںِ اور دیگر عوامل کی وجہ سے روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدور بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

بعض اوقات یہ افراتفری کے حالات کئی دنوں تک بھی جاری رہتے ہیں جس سے مزدور پیشہ افراد فاقوں کی نوبت کو آجاتے ہیں ۔

 

مزید پڑھیں: پاکستانیوں بارے چند عجیب و غریب حقائق جس پر دنیا کی سوچ دنگ رہ جائے

یہی وجہ ہے کہ محنت کی کشش ختم ہوتی جارہی ہے اور مزدور حکومتی اور دیگر فلاحی منصوبوں سے حاصل ہونے والی رقوم پر نظر رکھتے ہیں اور محنت سے کتراتے ہیں۔

اسی طرح ملک کے معاشی حالات سے متاثر ہونے والا سب سے بڑا طبقہ بھی یہی مزدور طبقہ ہوتا ہے۔ ادارے ڈاؤن سائزنگ پر آتے ہی تو سب سے پہلے نچلے ملازمین کا ہی قلع قمع ہوتا ہے۔
ایسے ماحول میں محنت کش طبقہ مزدوری سے ہٹ کر جرائم کی راہ اپنا لیتے ہیں۔

 

اس عمل کو کیسے روکا جائے؟

مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر حکومت کو اس بات کو ممکن بنائے کہ کم از کم اجرت کو مزدوروں تک لازمی پہنچایا جائے۔

اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں کے ویلفیئر کیلئے ریاستی سرپرستی کرے تا کہ مزدور محنت کی طرف راغب رہے۔

ایسے پرائیوٹ مالکان جو اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں سستی برتیں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

یہ تو گنتی کے چند ایکشن ہیں، لیکن ہمیں مزدور پیشہ طبقہ کو دوبارہ محنت کی طرف راغب کرنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button