پاکستان

2024؛ پاکستانی عدلیہ کیلئے بدترین عدالتی سال

سال 2024 عدالتی سال کے طور پر پاکستانی عدلیہ کیلئے ایک بدترین سال رہا ہے کیونکہ اس میں عدلیہ کے بطور ستون حیثیت ختم کر کے رکھ دی گئی ہے۔افسوس یہ کہ یہ کام بھی ریاست کے دوسرے ستون یعنی کہ مقننہ نے کیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ کہ عدلیہ نے اپنے ہی پر کاٹنے میں سہولت کار کا کام سر انجام دیا۔
وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ کو سپریم کرتے کرتے یہ بھول گئے کہ عدلیہ بھی ریاست کا ستون ہے۔ اور پھر اس سہولت کاری کی نتیجے میں 26 ویں آئینی ترمیم کی گئی اور عدلیہ کو پارلیمنٹ کی تابع کر دیا گیا۔
اس عمل کے بعد سپریم کورٹ کے اندر آئینی بینچ کی صورت میں ایک اور سپریم کورٹ بن گئی۔ چیف جسٹس کا عہدہ رسمی ہو گیا، اور سب طاقت آئینی بینچ کے پاس چلی گئی۔
چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ اور اراکین کو لگانے کی ذمہ داری بھی حکومت نے اپنے قبضے میں کر لی۔
سنیارٹی کا اصول دفنا دیا گیا اور سیاستدانوں کو من مرضی کے چیف جسٹس لگانے کی آزادی دے دی گئی۔
یہ نہیں کہ عدلیہ میں اس کے خلاف آواز نہ اٹھی، لیکن جنہوں نے آواز اٹھائی ان کی آواز کو جوڈیشل کمیشن میں اکثریتی رائے سے دبا دیا گیا اور ظاہر ہے حکومت وقت ہی جوڈیشل کمیشن میں اکثریت میں تھی اس لئے آواز دب سی گئی۔

مزید پڑھیں:2024؛ پاکستان میں‌صحافیوں‌کیلئے خطرناک ترین سال

آئینی مقدمات سننے والے بینچ کے سربراہ نے خود کو ووٹ دے کر 6 ماہ کیلئے آئینی بینچ کو مزید توسیع دی تو یہ بات بھی عیاں ہو گئی کے 26 ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں میں بھی عدلیہ کی کھوئی ہوئی طاقت واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سویلینز کو فوجی عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے جیسے فیصلوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کے اس آئینی بینچ نے دنیا بھر میں رسوائی کا سامان بھی پیدا کیا۔
گزشتہ چیف جسٹس کے اقدامات کو کھول کر عدالتی سال کو تجزیہ کیا جائے تو 2024 کا تجزیہ شاہد 2025 تک ختم نہ ہو پائے لیکن اگر اختصار اور محتاظ الفاظ کے سہارے لکھا جائے تو سال 2024 عدلیہ کیلئے ایک بدترین عدالتی سال کے سوا کچھ نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button