
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ باکمال شاعر تھے۔ ایک دن وہ حضور پاک ﷺ کے سامنے حاضر ہوئے اور نبی علیہ السلام سے کہنے لگے اللہ کے پاک پیغمبر میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی شان میں آپ کی تعریف میں کوئی شعر کہوں۔
نبی علیہ السلام خاموش ہو گئے کہ میں کیسے حسان سے کہوں میں بیٹھا ہوں میرے منہ پہ میری تعریفیں کرتے جائیں۔
حضرت حسان ابھی محفل میں بیٹھے ہی نہیں تھے کہ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی جس میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میرے پاک پیغمبر حسان سے کہیے کہ اٹھ کے آپ کی تعریف کرے۔ میں اللہ کی بھی یہی چاہت ہے ۔
صحیح بخاری کے الفاظ ہیں نبی علیہ السلام نے حضرت حسان سے فرمایا اے حسان اٹھ جا۔ اللہ نے جبرائیل امین کے ذریعے سے تیری تائید کر دی ہے۔
کچھ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ ایک شاعر نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ حجویہ اشعار کہے۔
جب وہ اشعار حضورﷺ تک پہنچے تو آپ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت سے فرمایا کہ حسان اٹھو اور ان اشعار کا جواب دو۔
مزید پڑھیں: دعا کی قبولیت میں دیر کتنی خوبصورت ہو سکتی ہے؟
حضرت حسان بن ثابت کے اشعار:
حضرت حسان بن ثابت اٹھتے ہیں اور اشعار حضور اکرم ﷺ کی شان میں پیش کرتے ہیں جنہیں آج چودہ سو سال بعد بھی پڑھیں تو عجب سے کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور دل محبت مصطفیٰ سے معطر ہو جاتا ہے۔
واحسن منک لم ترقط عینی ِِ
واجمل منک لم تلد النساءِِ
خلقت مبرءاََ من کل عیب
کاَنک قد خلقت کما تشاءِِ
ترجمہ:
آپ ﷺ جیسا حسین میری آنکھ نے دیکھا نہیں ہے
آپ ﷺ جیسا حیسن تو کسی ماں نے جنا ہی نہیں ہے
اللہ نے آپکو ہر عیب سے پاک پیدا کیا
لگتا یوں ہے کہ اللہ نے آپکو ایسا پیدا کیا کہ جیسے آپ کی منشاء ہو
یوں تو اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ اللہ وہ ذات ہے کہ جوماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں بناتا ہے جیسے وہ چاہتا ہے۔ لیکن حضرت حسان فرماتے ہیں کہ آپکو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسےآپکو ایسا بنایا گیا ہے جیسا آپ چاہتے تھے۔ ان اشعار کو آج چودہ سو سال بعد سننے سے بھی ایمان تازہ ، دل منور اور زبان دوردو سلام کہنے لگتی ہے۔
قصیدہ حسان بن ثابت :
قصیدہ حسان بن ثابت کے ان مشہور اشعار کے آگے بھی ہر شعر الگ لطف بخشتا ہے۔ چند اشعار کا مزید اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:
"بدی کا دور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی
خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے
وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
انہی کے سامنے جھکتے انہی کی حمد گاتے تھے
کسی کا نام "عُزی”تھا کسی کو "لات” کہتے تھے
"ہُبل” نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے
اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
تو اُُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے
پر جو بھی بُرائی تھی سب ان میں پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں میں گھر گھر بے حیائی تھی
مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
تو عبداللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا”