اہم خبریںٹرینڈنگسوشل

دورہ پڑنے پر سی پی آر کر کے مریض کی جان کیسے بچائی جا سکتی ہے؟

گزشتہ روز سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک استاد دوران لیکچر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک استاد لیکچر دے رہے ہیں۔

اچانک وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہیں اور وہیں گر جاتے ہیں اور ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ استاد کا نام نیاز احمد تھا جو مظفر گڑھ کے نواحی علاقے شاہ جمال سے تعلق رکھتے تھے۔

وہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں تربیتی سیشن دے رہے تھے جس دوران انہیں دل ک تکلیف ہوئی اور یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ۔

سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو بہت زیادہ شیئر کیا جارہا ہے لیکن یہاں ایک پہلو کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ اگر ایسی ہنگامی صورت پیدا ہو جائے تو بھرے مجمع میں سے کیا کوئی متاثرہ شخص کی جان بچانے کو نہیں آ سکتا۔

کیا دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے یا اس موقع پر کوئی طبی امداد بھی دی جاسکتی ہے؟

اس کا جواب ہے ہاں۔ دل کی دھرکن رکنے کی صورت میں مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے جس کیلئے سی پی آر کا پروسیجر کیا جاتا ہے۔

رکئے نام سن کر مت گھبرائیے۔ یہ کوئی مشکل مشینی عمل نہیں جس کے ذریعے سانس بحال کی جاتی۔ یہ ایک آسان عمل ہے جسے کوئی بھی باآسانی پرفارم کر سکتا ہے۔

آئیے طبی ماہرین کی رائے کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ سی پی آر کیا ہے اور یہ کیسے کیا جاتا ہے۔

 

سی پی آر کیا ہے ؟

 

کارڈیوپلمونری ریسیسیٹیشن (Cardiopulmonary Resuscitation) یا سی پی آر سانس اور دھڑکن بحال کرنے کی کوشش/ طبی امداد ہوتی ہے۔

اگر کسی مریض کا اچانک دل دھڑکنا بند ہو جائے تو فوری طور پر اس کے سینے پہ دل کے مقام کو مخصوص انداز اور رفتار سے بار بار شدید قوت کے ساتھ دبایا جاتا ہے تاکہ جسم میں خون کی گردش جاری رہے اور ساتھ مصنوعی سانس دینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ گردش کرتے خون میں آکسیجن کی کمی نہ آئے۔

اس محنت سے بعض اوقات دل کی دھڑکن رک کر دوبارہ بحال ہو جایا کرتی ہے۔ اس سارے طریقہ کار کو سی پی آر کا نام دیا جاتا ہے۔

سی پی   آر کا طریقہ کار :

 

طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اگر مریض زمین پہ ہے تو اس کے برابر دوزانو بیٹھ جائیں اور اگر بیڈ پہ لیٹا ہوا ہے تو بیڈ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں یا بیڈ کے اوپر چڑھ کر اس کے برابر دوزانو بیٹھ جائیں۔

اس کے بعد دونوں ہتھیلیاں اوپر نیچے جوڑ کر مریض کے سینے پہ دل والے مقام پہ رکھ لیں۔ بازو بالکل سیدھے رکھیں اور کہنیوں کے مقام پہ خم نہ ڈالیں کیوں کہ اس عمل میں بہت زیادہ زور لگتا ہے۔

بازو سیدھے ہوں تو جسم کا سارا وزن ہتھیلیوں پہ ڈال کر زور لگانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

اس سب کے بعد مریض کا سینہ اتنے زور سے دبائیں کہ سینہ پانچ سینٹی میٹر (تقریباً دو انچ) تک نیچے جائے۔ (بچوں میں تقریباً چار سینٹی میٹر تک نیچے دبنا چاہیے) پھر سینے کو ڈھیلا چھوڑیں اور اسے واپس اپنی جگہ پہ آنے دیں (اس دوران اپنی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آنے دینا) پھر فوراً سینے کو دوبارہ دبائیں اور یہ عمل دہراتے رہیں۔

یہ سارا عمل اتنی تیزی سے کرنا ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں تقریباً سو دفعہ سینہ دبایا جائے یعنی ہر سیکنڈ میں تقریباً دو دفعہ۔

سینہ دبانے کے دوران سانس کے ذریعے آکسیجن بھی پہنچانی ضروری ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سینہ دباتے ہوئے ساتھ ساتھ گنا جائے ، پھر تیس دفعہ سینہ دبانے کے بعد دو دفعہ سانس دینے کی کوشش کی جائے۔

 

مزید پڑھیں: ڈیجیٹل تھکاوٹ کیا ہے؟ اس کی علامات کیا اور کیسے بچا جائے؟

ہسپتال میں تو مصنوعی سانس کے لیے ایمبو بیگ موجود ہوتا ہے تو ایک ڈاکٹر سانس کی نالی منہ میں ڈال کر ایمبو بیگ پکڑے تیار کھڑا ہوتا ہے ، جیسے ہی تیس دفعہ سینہ دبا کر پہلا ڈاکٹر ہاتھ روکتا ہے دوسرا ڈاکٹر فوراً دو دفعہ اس بیگ کو دبا کر مریض کے اندر سانس پہنچاتا ہے۔

اس کے بعد پھر سے سینہ دبانے والا اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔

عام حالات میں اس ایمبو بیگ کی عدم موجودگی کی وجہ سے منہ سے منہ جوڑ کر سانس دیا جاتا ہے۔ اس میں منہ اس طرح جوڑنا ہوتا ہے کہ ہوا مریض کے منہ سے باہر نہ جائے۔ سانس دینے کے دوران مریض کا ناک بند کیا جاتا ہے تاکہ دی جانے والی سانس ناک کے رستے باہر نہ نکل جائے۔

منہ سے سانس دینے کے دوران مریض کے سینے کے ابھار کو دیکھا جاتا ہے اگر سانس دینے کے دوران مریض کی چھاتی بلند ہو رہی ہو تو سانس ٹھیک دیا جا رہا ہے۔ اگر پیٹ بلند ہو رہا ہو یا چھاتی اور پیٹ میں کوئی فرق نہ پڑ رہا ہو تو درست طریقے سے سانس نہیں دیا جا رہا۔

دو دفعہ سانس دینے کے بعد پھر سے فوراً سینہ دبانا شروع کر دیا جاتا ہے، یہ سارا عمل تب تک دہرایا جاتا جب تک مریض کی دھڑکن دوبارہ بحال نہ ہو جائے یا یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب اس مریض کے دل کی دھڑکن دوبارہ چلنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔

ہر شخص  کیلئے یہ  طریقہ کار سیکھنا کیوں ضروری ہے؟

 

عموماً یہ طریقہ کار چند منٹ تک جاری رہتا ہے لیکن دنیا بھر میں اس سے سینکڑوں قیمتی جانیں بچائی جاتی ہیں۔

اس لئے ہر شخص کو بطور ذمہ دار شہری اس طریقہ کار کو سیکھنا چاہیے کیونکہ کل کو اس کے گھر کا فرد یا قریبی عزیز اس تکلیف سے دوچار ہوسکتا ہے۔

 

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button