
حکومت کے سوشل میڈیا کے مخالف پے درپے بیانات دیکھ کر لگتا ہے جیسے آئینی ترامیم کے بعد حکومت کا اگلا نشانہ سوشل ایپس کی بندش ہو۔ آئینی ترامیم کیلئے حکومت کو جس قدر سخت اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں سوشل میڈیا پر بندش کیلئے تو اس سے آدھی محنت درکار ہے۔
سوشل میڈیا بند کرنے کے حوالے سے گزشتہ روز وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ اگرسوشل میڈیا ریگولیٹ نہیں ہوسکتا تو اسے بند کر دینے چاہیے۔ عظمیٰ بخاری سوشل میڈیا پر اپنے حوالے سے فیک مواد کے کیس کا حوالہ دے رہیں تھیں جس میں انہوں نے صنم جاوید کی بہن فلک جاوید خان کو نامزد کر رکھا ہے۔
گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بھی ایکس کی بندش کا جواز نیشنل سیکورٹی بیان کرتے ہوئے اسے درست قرار دے دیا۔
اس کے علاوہ آج کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں چیئرمین پی ٹی اے نے بھی انکشاف کیا کہ پاکستان میں فائر وال کی تنصیب کا کام اکتوبر کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔
ان تمام تر بیانات اور اقدامات سے لگتا ہے کہ جیسے حکومت سوشل میڈیا کی بندش کا مکمل پلان لے کر بیٹھی ہو۔
مزید پڑھیں:حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کی راہ میںایک اور بڑی رکاوٹ
اس حوالے سے بات اسلئے بھی پریشان کن ہے کہ پاکستان میں عدالتیں بھی اس معاملے پر کچھ ریلیف مہیا نہیں کر پارہی ہیں۔ ایسا ہی ایک کیس پاکستان میں ایکس کی بندش سے متعلق کئی ماہ سے عدالتوں میں زیر سماعت ہے اور حکومت اس معاملے کو نیشنل سیکورٹی کے معاملے پر التواء میں ڈالے ہوئے ہے۔
یہاں اگر حکومت یہ فیصلہ کر لے جیسا کہ گزشتہ دنوں انٹرنیٹ کی بندش کا ہوا ہے تو ممکن ہے کہ پاکستانی ایکس کی طرح دیگر سوشل میڈیا ایپس جیسا کہ فیس بک ، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں۔
وفاقی اور صوبائی وفاقی وزراء کی دھمکیاں ہوں یا پی ٹی اے کی جانب سے خفیہ اقدامات اور ان کی وجہ نیشنل سیکورٹی قرار دینا، پاکستان میں سوشل میڈیا کے مستقبل کے حوالے سے نیک شگون نہیں ہے۔