
مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا، یہ ڈائیلاگ سننے کے بعد جو پہلا نام پاکستانیوں کے ذہن میں آتا ہے وہ سلطان راہی کا آتا ہے جنہوں نے اپنے کمال کیرئیر کے دوران کئی ایسے ڈائیلاگ دیئے جو آج ان کے گزر جانے کے 30 سال بعد بھی لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔
تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا اتنا بڑا نام آج اپنے قتل کے 30 سال گزرنے کے باوجود بھی انصاف کا متنظر ہے لیکن آج تک ان کے قتل کا عقدہ نہ کھل سکا۔
جب سلطان راہی قتل ہوئے:
9 جنوری 1996 کا دن تھا، پاکستان فلم انڈسٹری کا مایہ ناز نام سلطان راہی امریکا کا ویزہ لگوانے کے بعد بذریعہ جی ٹی روڈ واپس لاہور کیلئے محو سفر تھے۔ ان کے ساتھ ان کا ڈرائیور حاجی احسن بھی تھا۔
گجرانوالہ بائی پاس کے قریب اچانک ٹائر پھٹ گیا۔ ڈرائیور ٹائر بدلنے میں مصروف تھے کہ اسی اثناء میں دو ڈاکو سلطان راہی کی طرف بڑھے، اور تلاشی لینے لگے۔
راہی صاحب ڈاکوؤں سے گھتم گھتا ہو گئے لیکن اس دوران گولی چل گئی اور یہ گولی ان کا جبڑا چیرتی ہوئی دماغی سے پار ہو گئی۔
ڈرائیور نے بائی پاس پر کئی گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ بالاآخر ڈرائیور نے قریبی پمپ پر پہنچ کر پولیس کو اطلاع دی لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ راہی صاحب اب اس دنیا سے جا چکے تھے۔
مزید پڑھیں:2024 میں لاپتہ افراد کے کتنے کیسز کمیشن کو موصول ہوئے
سلطان راہی کے قتل کا معمہ 29 سال بعد بھی حل نہ ہو سکا ۔ تاہم چند روز قبل سلطان راہی کے بیٹے حیدر سلطان نے نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیا جہاں انہوں نے اپنے والد کے قتل کے معاملے پر کھل کر بات کی۔
حیدر سلطان کے اپنے والد کے قتل کیس میں انکشافات:
اس انٹرویو کے دوران حیدر سلطان نے واضح کیا کہ ان کے والد کا کسی کے ساتھ کوئی دشمنی کا معاملہ نہ تھا۔ اس کے برعکس جو بڑے بدمعاش ہوا کرتے تھے وہ راہی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے اور ان کے ساتھ عزت سے پیش آیا کرتے تھے۔
تاہم حیدر سلطان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کے قتل کے کیس کو گجرانوالہ پولیس نے مس ہینڈل کیا جس کی وجہ سے جب کیس ہم تک لاہور پہنچا تو بہت سے چیزیں غائب ہو چکیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی شک گزرتا ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر یہ کام کروایا ہو۔ تاہم ان راہی صاحب کی کبھی کسی کے ساتھ دشمنی نہ رہی۔
حیدر سلطان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعہ کا ایک ہی گواہ ہے اور ابھی زندہ ہے اور وہ ڈرائیور احسن ہے۔ حادثے کے بعد اسے کام سے نکال دیا تھا۔ آج 29 سال گزرنے کے بعد بھی اس شخص کو دیکھوں تو غصہ آتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ تم نے ہی مارا ہے۔
حیدر سلطان کا کہنا تھا کہ اس (ڈرائیور ) سے پوچھتے ہیں کہ بتا دو کہ کیا وجہ بنی؟ تم قریب المرگ ہو۔ اس عمل سے والد نے واپس تو نہیں آجانا لیکن ذہن میں ایک کانٹا سا ہے کہ یہ کیوں کیا گیا؟