
گزشتہ سال 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے رد عمل میں جب پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن کیا گیا تو پی ٹی آئی رہنما ایک ایک کر کے پارٹی چھوڑنے لگے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے نمایاں رہنماؤں میں عامر کیانی، پرویز خٹک فواد چوہدری، عثمان بزدار، فرخ حبیب، فواد چوہدری ، فیاض الحسن چوہان ، اسد عمر اور غلام سرور خان سمیت کئی اہم رہنما شامل تھے۔
کئی رہنماؤں نے باقاعدہ پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرلی، جس میں جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی سر فہرست ہے۔ دوسری کئی رہنماؤں نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی چھوڑ دی۔
سیاست سے کنارہ کشی کر کے پارٹی چھوڑنے والوں میں بھی دوطرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جنہوں نے کچھ دن بعد سے ہی انتخابات کی آمد کے پیش نظر کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ دوسرے نمائندوں نے اس سال ہونے والے عام انتخابات میں واقعتاً حصہ نہ لیا۔
اسی طرح پرویز خٹک نے سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور کئی اور رہنماؤں کو ساتھ ملا کر اپنی پارٹی بھی بنالی۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کونسا امیدوار ان انتخابات میں حصہ لے رہا ہے اور کون نہیں؟
سیاست چھوڑ کر دوبارہ امیدوار بننے والوں میں عامر کیانی سر فہرست ہیں۔ کیانی پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اور وہ اولین رہنما تھے جنہوں نے 9 مئی کی مذمت کرتے ہوئے پارٹی چھوڑتے ہوئے سیاست سے بھی کنارہ کشی کر لی تھی۔
تاہم بعد ازاں انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اسلام آباد سے ان کی حمایت میں ن لیگ نے سیٹ خالی چھوڑ دی تھی تاہم بعدازاں استحکام پاکستان پارٹی نے راجہ خرم نواز کو اسلام آباد کے اس حلقہ این اے 48 سے سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تو عامر کیانی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں نوجوان ووٹرز کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا؟
راجہ خرم نواز نے بھی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس وقت وہ انار کے انتخابی نشان پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہیں اسلام آباد کی اس سیٹ پر استحکام پاکسستان پارٹی اور ن لیگ کی حمایت حاصل ہے۔
سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی پارٹی چھوڑ کر اپنی نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کی بنیاد رکھی جس میں انہیں محمود خان سمیت کےپی میں کئی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وہ رہنما تھے جن کیلئے عمران خان نے اپنی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ تک کی لڑائی مول لی۔ تاہم مشکل وقت میں وسیم اکرم پلس نہ چل سکے۔ 9 مئی کے بعد وہ روپوش رہے لیکن اچانک بلوچستان میں پریس کانفرس کرکے انہوں نےبھی پارٹی اور عدالتی کارائیوں سے جان چھڑاتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی کرلی۔
بزدار نے پہلے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تاہم بعدازاں وہ مسلم لیگ ضیاء میں شامل ہوگئے۔
پارٹی میں عمران خان کے جانشین سمجھے جانےوالے اسد عمر نے 9 مئی کے بعد پارٹی تو نہ چھوڑی لیکن ان کے بیانیے کو عمران خان اور پارٹی نے پسند نہ کیا۔ اسد عمر پر عمران خان شدید غصہ تھے۔ واپسی کے تمام تر راستے بند ہونے کے بعد بالآخر اسد عمر نے سیاست چھوڑ دی اور اب وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔
اسی طرح پارٹی چھوڑنے والے صداقت عباسی، ڈاکٹر شیریں مزاری ، ملیکہ بخاری، اور عثمان ڈار بھی ۔8 فرووری کو ہونے والے الیکشنز میں امیدوار نہیں ہیں.