بلاگزاویہ

جب عوامی مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے پر ملک ٹوٹا

یہ 1970 کی بات ہے جنرل یحییٰ نے ملک بھر میں عام انتخابات کرائے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے اور ان الیکشن کو پاکستان کی تاریخ کےسب سے شفاف الیکشن کے طور پر مانا جاتا ہے۔ الیکشن شفاف ہوئے تو نتائج کسی کی سوچ سے بھی مختلف تھے۔
ہوا کچھ یوں کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان نے کلین سویپ کیا اور ان کی جماعت نے 160 نشستیں حاصل کی۔ جبکہ مغربی پاکستان میں وہ ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکے۔
مغربی پاکستان میں بھٹو نے 81 نشستیں حاصل کی لیکن وہ مشرقی پاکستان میں ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر پائے۔ پاکستان واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آرہا تھا تاہم مقبول جماعت ہونے اور زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے شیخ مجیب پاکستان کے اگلے حکمران بننے کے حقدار تھے۔
ایسے میں جنرل یحییٰ پر بھاری ذمہ داری تھی کہ وہ اقتدار زیادہ ووٹ لینے والی جماعت کو منتقل کریں۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا۔ تاہم بھٹو نے اجلاس میں آنے سے معذرت کر لی۔ یہی نہیں انہوں نے اپنی جماعت کی منتخب نمائندوں کو دھمکی بھی دے ڈالی کہ جو شخص اسمبلی میں گیا، وہ اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے۔


ساتھ ہی بھٹو نے جنرل یحییٰ پر زور ڈالنا شروع کردیا کہ وہ اجلاس ملتوی کردیں۔ یحییٰ کا اجلاس ملتوی کرنا تھا کہ مشرقی پاکستان میں حالات بگڑ گئے۔بنگالیوں کو صاف نظر آرہا تھا کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ انہیں آگے نہیں آنے دے گی اور ان کا حق طاقت سے دبانے کی کوشش کرے گی، یوں بنگالی سڑکوں پر نکل آئے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کو چالیس سال بعد انصاف ملے گا

یہاں صدر یحییٰ کا امتحان تھا کہ وہ اس معاملے فہم و فراست سے دیکھتے، احتجاج کو بنگال رہنماوؤں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا اور اقتدار زیادہ نشستیں رکھنے والی پارٹی کے سپرد کر دیا جاتا۔
تاہم جنرل یحییٰ نے ایسا نہ کیا۔ اسکی بجائے انہوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کرا دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے اس آپریشن کو بھٹو نے بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا۔
ادھر جب بنگال میں حالات بگڑے تو بھارت جوپہلے ہی مکتی باہنی کے ذریعے مسلح تحریک شروع کرا چکا تھا میدان میں کود پڑا۔ اور پاک فوج مکمل طور پر گھیرے میں آ چکی تھی۔فوج مرکز سے بہت دور تھی، سپلائی لائن کٹ چکی تھی اور مشرقی پاکستان کی سرزمین بیگانی ہوچکی تھی۔ ایسے موقع پر پاکستان کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 90 ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔
ملک ٹوٹا اور دو ٹکڑے ہو چکا تھا اور اب مشرقی و مغربی پاکستان کی بجائے صرف پاکستان بچ گیا تھا۔
اس ساری جنگ اور ملک ٹوٹنے کے کئی اسباب تھے تاہم اسکی بنیادی وجہ عوام کی مقبول ترین جماعت کو روند کر اسکی جگہ اپنی من مرضی کی حکومت ترتیب دینے کی کوشش تھی۔ یوں‌عوامی مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی اس کوششس سے ملک ٹوٹا۔
آج الیکشن 2024 میں انتخابات میں واضح‌اکثریت کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومتی منظر نامے سے دور رکھا جارہا ہے اور نتائج زبردستی تبدیل کیئے جار ہے ہیں‌ اور وہی حالات بنائے جا رہے ہیں‌جس پر ملک ٹوٹا تھا۔ اس پر ایک مؤرخ کا جملہ یاد آتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے یہ سیکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں‌سیکھا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button