پاکستان

63 اے نظرثانی کیس کیا ہے اور اس سے پی ٹی آئی کو کیا خطرہ ہے

آئین کا آرٹیکل 63 اے پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والے اراکین اسمبلی کی نااہلی بارے ہے جس میں پارلیمانی لیڈر کی ہدایات اور پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی بھی معاملے پرووٹنگ کرنے پر متعلقہ شخص پارلیمنٹ سے نااہل ہو جاتا ہے اور جس قانون یا ترمیم کیلئے اس نے یہ ووٹ دیا ہوتا ہے وہ بھی شمار نہیں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے عمران خان کی حکومت پر عدم اعتماد سے قبل ایک صدراتی ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا گیا جس میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح طلب کی گئی۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے 2-3 سے فیصلہ دیا تھا کہ منحرف رکن ووٹ شمار نہیں ہو گا۔
اس کیس میں اس وقت جسٹس عمر عطاء بندیال کے ساتھ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
حکومت نے فیصلے کے خلاف نظرثانی دائر کی جسے سماعت کیلئے مقرر نہ کیا جاسکا۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے اسے 30 ستمبر کو سماعت کیلئے مقرر کر رکھا ہے اور اس کیلئے 5 رکنی بینچ بھی تشکیل دیا جاچکا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی اس نظرثانی سماعت کی ٹائمنگ سے پریشان نظر آتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے ووٹ چاہیں اور پی ٹی آئی کو اپنے چند اراکین بارے دعویٰ ہے کہ انہیں دباؤ کے ذریعے وفاداری تبدیل کرا کے آئینی ترمیم کیلئے نمبر پوری کئے جائیں گے۔

مزید پڑھیں:‌ن لیگ ولا مؤقف ، سلمان اکرم راجہ کی چیف جسٹس سے تکرار

اس حوالے سے کئی کورٹ رپورٹرز اور پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ممکنہ طور پر عدالت فیصلہ دے گی کہ منحرف رکن کی ناہلی تو ہوگی لیکن ووٹ ضرور شمار ہو گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 63 اے کی نظرثانی کیلئے قائم 5 رکنی بینچ میں دو ججز جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جمال خان مندو خیل بھی شامل ہیں جو کہ 2022 میں ہی اس کے خلاف اپنی رائے دے چکے ہیں۔
بقیہ تین ججز جسٹس امین الدین خان، قاضی فائز عیسیٰ یا منیب اختر میں سے کوئی ایک بھی اس کے حق میں گیا تو فیصلہ حکومت کے حق میں آجائے گا اور آئینی ترمیم کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
یوں 63 اے ںظرثانی کیس پی ٹی آئی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button