
ان دنوں حکومت کی جانب سے چند عدالتی معاملات کے حوالےسے آئینی ترمیم کی بات زبان زد عام ہے۔ اس آئینی ترمیم کا ممکنہ طور پر ایک فائدہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اٹھا پائیں گے کیونکہ اس سے انہیں مزید تین سال تک چیف جسٹس کا عہدہ رکھنے کی اجازت مل جائے گی۔
تاہم قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹینشن کیلئے آئین میں ترمیم کی لیئے حکومت کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہی تھی جو کہ 224 یا 225 سیٹیں بنتی ہیں۔ حکمران جماعت کےپاس الیکشن کے بعد یہ جادوئی نمبر نہیں تھا لیکن جب مخصوص نشستیں تقسیم کی گئیں اور پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل ) کی سیٹیں مخالف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں تو حکمران جماعت کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل گئی اور وہ آئینی ترمیم کی پوزیشن میں آگئے۔
اس پوزیشن میں آنے کے بعد سے ہی حکومت نے پھرتیاں دکھانی شروع کر دی تھیں جس میں سے ایک مسئلہ چیف جسٹس کی تقرری کی مدت کا بھی تھا اور اب اس کیلئے آئینی ترمیم ہو سکتی تھی۔
مزید پڑھیں: جسٹس بابر ستار نے وہ کر دکھایا جو قاضی فائز عیسیٰ نہ کر سکے
تاہم پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل ) نے اپنی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں بانٹنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی جس پر آج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا اور کیس کی مزید سماعت تین جون تک ملتوی کر دی۔ فیصلہ معطل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے حصے کی مخصوص نشستیں رکھنے والے حکومتی جماعتوں کی اراکین اب حق رائے دہی کھو چکےہیں ۔
اب یہ اراکین اسمبلی نہیں رہے کیونکہ ناں تو یہ اراکین اسمبلی کی ووٹنگ میں حصہ لے سکتے ہیں اور ناں اسمبلی کے اجلاس میں۔ یوں اگر حکومت آئینی ترمیم پیش بھی کرتی ہے تو دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پائیں گے ۔ یوں قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹینشن کی راہ میں سپریم کورٹ ہی رکاوٹ بن گئی ہے۔