بریک بغیر کام

صرف کام اور چھٹی نہ لینا نوجوان کی جان لے گیا

ورک لائف بیلنس سننے میں تو انگریزی کی ایک بھلی اصطلاح معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقی زندگی میں بھی اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے ورنہ اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔
آئے روز ہمیں ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جس میں کام کے بوجھ کی وجہ سے ملازمین ڈپریشن اور دوسری بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاہم اپ کی بات ہر وقت کا کام اور چھٹی نہ لینے کی عادت نے شہری کی جان لے لی۔
یہ واقعہ گزشتہ سال چین میں پیش آیا جہاں 30 سالہ آباؤ نامی ایک نوجوان لگاتار 104 دن تک صرف ایک چھٹی لئے کام کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے اس کے جسم کے کئی اعضا ایک ساتھ کام کرنا چھوڑ گئے اور یوں وہ چل بسا۔
متاثرہ شخص پیشے کے اعتبار سے ایک پینٹر تھا جس نے جنوری 2023 میں ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے بعد سے وہ لگاتار ایک تھکا دینے والے کام پر لگ گیا ۔
جنوری سے لے کر مئی کے دوران اس نے تقریبا 104 دن کام کیا اور صرف چھ اپریل کے ایک دن کی چھٹی لی۔ 25 مئی کواس کی طبیعت خراب ہوئی جس کے بعد اسے ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔
ڈاکٹرز نے آباؤ کے پھیپھڑوں میں انفیکشن کی نشاندہی کی جس کے بعد یکم جون کو مختلف جسمانی اعضاء کے ناکارہ ہونے کے باعث انتقال آباؤ کر گئے۔

مزید پڑھیں:پولیو وائرس اسلام آباد پہنچ گیا،خطرے کی گھنٹی

ان کے اہل خانہ نے کمپنی پر مقدمہ درج کرایا جس میں کمپنی پر غفلت برتنے کا الزام عائد کیا گیا ۔ تاہم کمپنی کا مؤقف تھا کہ آباؤ پر کام کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وہ رضا کارانہ طور پر اضافی وقت دے رہا تھا ۔
معاملہ عدالت میں گیا جہاں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ آباؤ کی موت میں کمپنی بھی 20 فیصد ذمہ دار ہے۔عدالت نے یہ آبزرویشن بھی دی کہ چین میں رائج ورکنگ اور یعنی کہ کام کرنے کے گھنٹوں سے زائد آباؤ سے کام لیا گیا جس پر عدالت نے چینی کرنسی میں کمپنی کو چار لاکھ روپے کا جرمانہ سنایا۔ کمپنی نے اس کے خلاف نظر ثانی بھی دائر کی تاہم عدالت کا فیصلہ برقرار رہا۔
آباؤ کے کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ورک لائف بیلنس رکھا جائے۔ وگرنہ موت واقع ہو گئی تو کمپنی صرف چند روپے دے گھر بری الذمہ ہو جائے گی اور باقی آپکے اہل خانہ کیلئے پوری زندگی کا صدمہ بن جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں