اہم خبریںپاکستانجرم و سزا

نشتر ہسپتال ملتان، طبی عملے کی غفلت سے 30 مریض ایڈزکا شکار

ملتان کے نشتر ہسپتال میں ایک دلخراش واقعے میں گردے کے مریض کی موت واقع ہو گئی جبکہ 30 دیگر افراد دورانِ ڈائیلاسس ہیومن امیونوڈیفیشینسی وائرس (ایچ آئی وی) /ایکوائرڈ امیونوڈیفیشینسی سنڈروم (ایڈز) کے انفیکشن میں مبتلا ہوگئے۔
جنوبی پنجاب کے اس سب سے بڑے سرکاری ہاسپٹل نشتر ہسپتال میں مبینہ غفلت کے بعد اُس وقت توجہ حاصل کی جب یہ بات سامنے آئی کہ مریضوں کو ایچ آئی وی مثبت کیسز کے لئے مخصوص تین ڈائیلاسس مشینوں پر رکھا گیا۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ جس مریض کا انتقال ایچ آئی وی/ایڈز کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوا، اس کی شناخت شاہنواز (40 سال) کے نام سے ہوئی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ مریض نشتر اسپتال کے نیفرولوجی ڈیپارٹمنٹ میں زیر علاج تھا، جہاں ڈاکٹروں نے اس کا ڈائیلاسس مکمل ہونے کے بعد ایچ آئی وی/ایڈز کا مثبت ٹیسٹ آنے پر اسپتال کی اعلیٰ انتظامیہ سے رابطہ کیا اور اسے فوری طور پر آئسولیشن وارڈ منتقل کرنے کی درخواست کی۔
عہدیدار نے کہا کہ انتظامیہ نے معالج ڈاکٹروں کی درخواست مسترد کر دی اور دعویٰ کیا کہ آئسولیشن وارڈ ڈینگی اور دیگر وبائی امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے مخصوص ہیں۔
کچھ طبی ماہرین کے حوالے سے عہدیدار نے کہا کہ ایچ آئی وی/ایڈز متاثرہ شخص کے جسمانی رطوبتوں سے منتقل ہوتا ہے، جو اکثر بغیر حفاظت کے جنسی تعلق، یا ایچ آئی وی ادویات کے استعمال، یا متاثرہ انجیکشن/آلات سے پھیلتا ہے۔
یہ وائرس جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ کرتا ہے جس سے انسان دیگر انفیکشن اور بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ مریض نے ایچ آئی وی مثبت کیسز کے لیے مخصوص ڈائیلاسس مشینوں سے وائرس حاصل کیا تھا اور منگل کی رات کئی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کر گیا ۔
مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی/ایڈز کے انفیکشن 30 دیگر مریضوں میں منتقل ہوئے ہیں، تو متعلقہ شعبے کے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے میں خوف و ہراس پھیل گیا، جسے ایک ہی وقت میں کسی سرکاری اسپتال میں سب سے زیادہ انفیکشن کا کیس قرار دیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:‌دنیا کی سب سے طاقتور غذا ؛ جو سموگ سے لڑنےکیلئے مفید ہے

ایچ آئی وی/ایڈز سے متاثرہ اتنے زیادہ مریضوں کے سامنے آنے سے نیفرولوجی ڈیپارٹمنٹ کا پورا عملہ بشمول ڈاکٹر اور نرسز بھی خطرے میں ہیں کیونکہ وہ متاثرہ مریضوں کے علاج کے دوران ان کے رابطے میں آئے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ پہلی بار 26 اکتوبر کو رپورٹ ہوا تھا لیکن نیفرولوجی یونٹ کے سربراہ اور ادارے کی سینئر انتظامیہ نے اسے دبا دیا اور کارروائی سے بچنے کے لیے تمام متاثرہ مریضوں کا داخلہ اور علاج کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔یہ معاملہ منگل کی رات مریض کی موت کے بعد سامنے آیا، جس پر اسپتال کی اعلیٰ انتظامیہ نے تحقیقات کا آغاز کیا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button