اہم خبریں

سعد رضوی ، انس رضوی تاحال لاپتہ، دونوں رہنماؤں بارے کیا خوفناک اطلاعات ہیں؟

سعد رضوی اور انس رضوی کا منظر عام سے غائب ہونا تشویشناک افواہوں کو جنم دے رہا ہے۔

مریدکے میں ہونے والے تصادم کے بعد ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔ پولیس نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی، ان کے بھائی انس رضوی اور دو سو سے زائد کارکنوں سمیت ہزاروں کے خلاف مختلف شہروں—مریدکے، راولپنڈی (راوت)، لاہور وغیرہ—میں دہشت گردی کے مقدمات درج کیے ہیں۔

ان ایف آئی آرز میں الزام ہے کہ مظاہرین نے سڑکیں بند کیں، پولیس پر حملے کیے اور عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔

پنجاب پولیس کے مطابق متعدد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ مزید کی تلاش جاری ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ جو بھی "قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا” اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

 

تصادم اور جانی نقصان

 

مریدکے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس کے مطابق مظاہرین نے پتھراؤ، پیٹرول بموں کا استعمال اور فائرنگ کی، جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم تین ٹی ایل پی کارکن، ایک عام شہری اور ایک پولیس افسر (ایس ایچ او شہزاد نواز) ہلاک ہوئے۔ کل ہلاکتوں کی تعداد تقریباً چار سے پانچ بتائی گئی ہے، جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے جن میں 48 پولیس اہلکار شامل ہیں (17 کو گولی لگی)۔

پولیس کے مطابق مظاہرین نے 40 سے زائد گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا اور سینکڑوں راؤنڈ فائر کیے۔

 

سعد رضوی اور انس رضوی کی صورتحال

 

پولیس نے سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کیے ہیں، تاہم ان کی موجودہ حالت اور جگہ کے بارے میں بیانات متضاد ہیں۔

بعض حکام کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی "ٹریس” ہو چکے ہیں اور جلد گرفتاری متوقع ہے، جبکہ پنجاب کے آئی جی عثمان انور نے واضح طور پر کہا کہ سعد رضوی "نہ تو گرفتار ہوئے ہیں، نہ ہی زخمی”۔
اس وقت دونوں بھائی پولیس حراست میں نہیں ہیں اور ان کی موجودہ جگہ کے بارے میں کوئی تصدیق شدہ معلومات دستیاب نہیں۔ یہی غیر یقینی صورت حال عوامی سطح پر مختلف قیاس آرائیوں اور افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔

ملک گیر احتجاج اور ردِعمل

 

مریدکے آپریشن کے بعد 13 اور 14 اکتوبر کو ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔

  • لاہور:

    سینکڑوں کارکنوں نے سڑکیں بند کیں اور گاڑیوں کو آگ لگا کر "ریاستی تشدد” کے خلاف احتجاج کیا۔

  • بورے والا:

    پولیس افسر سمیت پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔

  • فیصل آباد:

    مظاہرین نے چناب چوک بند کر دیا، یونیورسٹی کے امتحانات ملتوی کرنا پڑے۔

  • میان چنوں اور بہاولنگر:

    مظاہرے کے باعث عارضی طور پر سڑکیں بند ہوئیں، بعد میں کئی گرفتاریاں ہوئیں۔

  • کراچی:

    نارتھ اور نیو کراچی میں دھرنے دیے گئے، دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

کئی تعلیمی اداروں نے حفاظتی اقدامات کے تحت تدریسی سرگرمیاں معطل کر دیں۔ دوسری طرف حکومت نے ان کارروائیوں کو "قانون نافذ کرنے کی کارروائی” قرار دیا جبکہ حزبِ اختلاف اور مذہبی جماعتوں نے اسے "ریاستی جبر” کہا۔

سوشل میڈیا پر سعد رضوی ، انس رضوی متعلق افواہیں

 

حکومت اور مرکزی میڈیا نے محدود معلومات فراہم کیں، سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبریں تیزی سے پھیلنے لگیں۔ متعدد غیر مصدقہ پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ سعد رضوی کو گولیاں لگی ہیں یا وہ ہلاک ہو گئے ہیں، اور سینکڑوں کارکن مارے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی سے منسلک جاسم چٹھہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ” ذرائع سے آنے والی خبرکے مطابق تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی دونوں کو مار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں ہائی الرٹ ہے۔انٹرنیٹ کیبل کاٹ دی گئی ہے اور تمام سرکاری ملازمین، سیاستدانوں اور پبلک فگرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عوامی جگہوں سے دور رہیں۔ مریم نواز کو انڈر گراؤنڈ جانے کا کہا گیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔”

ایک اور ٹویٹ میں جاسم چٹھہ نے لکھا کہ ” تحریک لبیک کے متعد کارکنان کی میتوں کی بنا غسل بنا نماز جنازہ نامعلوم مقامات پر تدفین کردی گئی۔ یہ مقامات مریدکے ناروال روڈ پر واقع ہیں۔ یاد رہے مریدکے ناروال روڈ پر کئی مقامات غیر مقامی افراد کیلئے نو گو ایریا ہیں۔”

پولیس نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے، مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ صرف چند ہلاکتیں ہوئی ہیں، اور زیادہ تر آن لائن اعداد و شمار "بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے” ہیں۔

  • سعد رضوی کی حالت:

    کچھ پوسٹس میں کہا گیا کہ وہ زخمی یا گرفتار ہیں، جبکہ پنجاب کے آئی جی نے وضاحت کی کہ وہ نہ زخمی ہیں، نہ گرفتار۔

  • ہلاکتوں کی تعداد:

    سوشل میڈیا پر سینکڑوں اموات کا ذکر کیا گیا، مگر سرکاری ریکارڈ کے مطابق صرف چار اموات ہوئیں۔

پنجاب پولیس نے اعلان کیا ہے کہ وہ جھوٹی اطلاعات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اور درجنوں افراد کو "افواہیں پھیلانے” کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

تجزیہ: سرکاری خاموشی اور افواہوں کا پھیلاؤ

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی خاموشی، غیر شفاف بیانات، اور میڈیا پر محدود معلومات کی فراہمی نے عوام میں بے یقینی پیدا کر دی ہے۔

جب سرکاری سطح پر واضح اور تفصیلی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، تو افواہیں اور غیر مصدقہ بیانیے خود بخود جگہ بنا لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سعد رضوی اور انسرضوی کی صحت اور موجودگی کے بارے میں متضاد خبریں سوشل میڈیا پر پھیل رہی ہیں — جن میں سے بیشتر کی کوئی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button