ثالثی کا کردار ادا کرتے قطر پر اسرائیلی حملہ، امریکہ کا مشکوک کردار سامنے آگیا
حماس اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا صفِ اول کا اتحادی امریکہ بھی قطر پر حملے پر ناخوش

حماس اسرائیل جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے قطر پر اسرائیلی حملے نے جنگ بندی کی امکانات معدوم کر دیئے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنایا ۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق حملے میں حماس رہنما خلیل الحیہ خود محفوظ رہے لیکن ان کے بیٹے سمیت 6 افراد شہید ہو گئے۔
قطر پر اسرائیلی حملہ دنیا بھر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے اور اسکی سخت مذمت بھی جاری ہے۔
حماس اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے صفِ اول کے اتحادی امریکہ نے بھی قطر پر اسرئیلی حملے پر ناخوشگواری کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنتونیو گوترش کی جانب سے بھی اسرائیل کے دوحہ پر حملے کی شدید مذمت کی گئی۔
دوحہ میں اسرائیلی حملے کے بعد پاکستان اور الجزائر سمیت دیگر ممالک کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کو ’موت کا فرقہ‘ قرار دینے والے اعلیٰ امریکی افسر عہدے سے فارغ
اسرائیلی حملے پر قطر کا ردعمل:
قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے قطر پر اسرائیلی حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔
واقعہ کے فوری بعد پہلی پریس کانفرنس میں قطری وزیراعظم کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ وہ جوابی حملے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الرحمان الثانی نے اسرائیل کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
واقعہ کے بعد وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
وزیر اعظم نے قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے قطر کی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
I spoke with my dear brother, His Highness Sheikh Tamim bin Hamad Al Thani, Amir of Qatar, to express our strongest condemnation of Israel’s heinous bombing in Doha, a brazen violation of Qatar’s sovereignty & international law. Pakistan stands firmly with Qatar in this grave…
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) September 9, 2025
قطر پر اسرائیلی حملہ؛ امریکہ کا مشکوک کردار:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر کئے گئے حملے سے ناخوش ہیں۔
امریکی صدر نے اس معاملے سے خود کو الگ کرتے ہوئے قطر کو اپنا مضبوط اتحادی قرار دیا۔
حملے کے فوراً بعد انہوں نے امیر قطر سے رابطہ کر کے انہیں یقین دہانی کرائی کے قطر کے سرزمین پر ایسی کارروائی دوبارہ نہیں ہو گی۔
امریکی صدر کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ایلچی کو ہدایت جاری کی تھی کہ قطر کو حملے سے آگاہ کریں۔
لیکن قطر نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ انہیں حملے کے بعد آگاہ کیا گیا۔
اگرچہ امریکہ اس واقعہ سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن امریکہ کے طرزِ عمل کو بین الاقوامی سطح پر مشکوک طریقے سے دیکھا جارہا ہے۔
اول یہ کہ اگر امریکہ اس سے پہلے آگاہ تھا تو حملے کے فوراً بعد امیر قطر سے رابطہ کرنے والے امریکی صدر حملے سے قبل بھی رابطہ کر سکتے تھے۔ انہوں نے یہ کام ایک ایلچی کے سپرد کر کے اپنے اہم اتحادی کو خطرے میں کیوں ڈالا۔
دوسری جانب امریکہ صدر نے ابھی دو روز قبل ہی حماس کو سیز فائر ڈیل کے حوالے سے آخری وارننگ جاری کی تھی۔
اسرائیلی کی جانب سے قطر پر حملے (جس میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا) یہ دعویٰ زور پکڑتا جارہا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے صرف حماس رہنماؤں کو اکھٹا کرنا تھا تاکہ انہیں نشانہ بنایا جاسکے۔
کیا اب قطر ثالثی کا عمل بند کر دے گا؟
قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے حملے کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ کوئی چیز قطر کے ثالثی کے کردار کو متاثر نہیں کرے گی۔
اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ قطر اس حملے کے بعد بھی ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
قطر کو بین الاقوامی سطح پر بہترین ثالث کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس کی بڑی وجہ قطر کے تمام مخالف قوتوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ اس کے بیک وقت امریکہ اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں۔
اس سے قبل قطر طالبان کی میزبانی بھی کر چکا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ قطر پراسرائیلی حملے کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔