سیاسی جماعتوں اور طاقتور حلقوں سے تعلقات نے اب صحافیوں کے متنازع بنا دیا ہے۔ اب پاکستانی صحافت و سیاست پر گہری نظر رکھنے والا ہر شہری آپکو باآسانی بتاسکتا ہے کہ فلاں صحافی کس سیاسی جماعت کا گروید ہے۔ رہی بات طاقتور حلقوں سے قریبی تعلقات کی تو اسے پاکستانی صحافی اپنے گلے کے ہار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
ایسا ہی مظاہرہ سانحہ 9 مئی کے بعد بھی دیکھا گیا جب غائب ہونے والے پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان یا تو جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کےپلیٹ فارم سے کیا یا پھر مشہور صحافیوں کے پرائم ٹائم شوز میں۔
پھر چاہے وہ عادل شاہ زیب کے شو میں صداقت عباسی کا انٹرویو ہو، منیب فاروق کی شو میں شیخ رشید کا انٹرویو ہو، شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں خاور مانیکا کا انٹرویو ہو یا کامران شاہد کے شو میں عثمان ڈار کا انٹرویو، ہر نشست کو دیکھنے والوں نے اس صحافت کو ناپسند کا اور یہ صحافی جب موقع ملتا ہے عوام اور اپنے دیگر صحافی برادری کے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
اب کی بار نشانہ بنے کامران شاہد جنہوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر انگلش میں ایک ٹویٹ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے معتبر ذرائع نے بتایا کہ نہ تو ان کے اور عمران خان کے درمیان جلسہ یا کسی اور معاملے پر کوئی پیغام بھیجا گیا اور نہ ہی کوئی رابطہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں:صحافیوں کو کام کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیوں کرنا پڑ رہا ہے
ذرائع نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی صرف اس وقت جلسہ منعقد کرنے کی اپنی صلاحیت کو چھپانے کے لیے فیس سیونگ کی تلاش میں ہے جب پی ٹی آئی کی صفیں آپس میں منقسم ہیں۔
کامران شاہد کی ٹویٹ سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کے ہتھے چڑھ گئی۔ پی ٹی آئی کارکنان نے ان کی ٹویٹ گرامر کی غلطیاں نکال کر لال کر دی۔
ایک صارف نے جب اپنے ایکس اکاؤنٹ سےمتعلقہ پوسٹ گرامر کی غلطیوں کی درستگی کے ساتھ شیئر کی تو کمنٹ سیکشن میں ایک صارف نےلکھا کہ پگلے چیٹ جی پی ٹی سے اسفادہ کر لیتے پر وہ کیا ہے نا کہ نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک ٹویٹر صارف نے گرامر کی درستگی کیلئے کامران شاہد کو گرامرلی سافٹ ویئر انسٹال کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔