پی ٹی آئی سے منسلک نوجوان محمد فیضان کی گمشدگی کو تین ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک ان کی بازیابی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ اس حوالے سے آج عدالتی سماعت بھی ہوئی جس میں محمد فیضان کے والد عدالت میں پیش ہوئے۔
صحافی صدیق جان کے مطابق 76سالہ باپ نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔ فیضان کے والد روسٹرم پر وکیل رضوان اعوان کے ساتھ آکر کھڑے ہو ئے،روتے ہوئے کہا جج صاحب ان سے پوچھیں کہ میرے بیٹے کا جرم کیا ہے ؟؟
انہوں نے ہاتھ باندھ کر کہا کہ جج صاحب مجھے پھانسی پر لٹکانے کا حکم کر دیں۔ میں 76 سال کا ہوں ،میری بیوی 65 سال کی ہے ، ہم دونوں پل پل مررہے ہیں ۔ فیضان کی ماں بیمار ہیں ، شدید تکلیف میں ہیں۔ جب سے بیٹا جبری لاپتہ ہوا ہے وہ بستر پر پڑی ہیں ، اور کتنا ظلم کرنا ہے ہمارے ساتھ ؟ ہم مزید ظلم سہنے کے قابل نہیں رہے۔
مزید پڑھیں:عون علی کھوسہ کی گمشدگی جڑے سوالات جن کے جواب ابھی باقی ہیں
فیضان کے کیس پر بات کرتے ہوئے اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ فیضان ملک ایک پروفیشنل فوٹوگرافر ہے جس کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں- اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ تک نہیں- حکومت پاکستان کی انفارمیشن منسٹری میں کام کیا- اور کچھ عرصہ تحریک انصاف کے سنٹرل آفس میں بطور فوٹوگرافر نوکری کی- ایک پروفیشنل فوٹوگرافر سے کون سے ایٹم بم کے راز نکلوا رہے ہیں کہ تین ہفتے سے اغوا کیا ہوا ہے؟
یاد رہے کہ اظہر مشوانی کے بھائی بھی کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں۔ آج کی سماعت کے بعد جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اظہر مشوانی کے بھائیوں اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکن محمد فیضان کی بازیابی کی درخواستوں پر اٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے ملاقات کر کے حل نکالنے کیلئے 22 اگست جمعرات تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔