
جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد یوں تو ان پر کوئی ایسا الزام نہیں جو کہ اب تک نہ لگایا جا سکا ہو لیکن پی ٹی آئی کو چلانے کا الزام ان میں سے سب سے زیادہ فوکس کیا جارہا ہے۔ جنرل فیض حمید کا تعلق پی ٹی آئی سے جوڑ کر کیا کارروائی کرنا مقصود ہے اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی واضح کر دیا ہے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا جنرل فیض حمید کی گرفتاری کا ڈرامہ میرا مقدمہ ملٹری کورٹ میں لے جانے کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ انہیں پتہ ہے میرے خلاف تمام مقدمات کھوکھلے ہیں جو سٹینڈ نہیں کریں گے ۔ یہ سب ملٹری کورٹ کا چکر چل رہا ہے ۔ فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنائیں گے ! پی ٹی آئی کو چلانے کے حوالے سے صحافی ثمینہ پاشا کہتی ہیں کہ پہلے سنا تھا کہ پی ٹی آئی کو جنرل پاشا چلا رہے ہیں، پھر ظہیر الاسلام چلانے لگے۔ پھر جہانگیر ترین اور علیم خان چلانے لگے۔ پھر پتہ چلا کہ فیض حمید چلا رہے ہیں ۔ اب یہ سب منظر میں کہیں نہیں لیکن پی ٹی آئی پھر بھی چلی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل بے نقاب
اب اس کو کون چلا رہا ہے بھئی؟ پاکستان میں پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی پیدائش اور مختلف ادوار میں حکومتوں میں بھی مختلف افسران کے نا م آتے ہیں۔ نواز شریف کو لانے میں اور چلانے میں جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کا کردار کیا ہے یہ تاریخ کی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان اچھی طرح جانتا ہے۔ اسی طرح جنرل ایوب خان اور ذالفقار علی بھٹو کا سیاسی تعلق بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ تاہم صرف پی ٹی آئی کے حوالے مختلف اداور میں پارٹی چلانے کا بیانیہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جنرل فیض کی گرفتاری پر بھی یہی الزام دہریا جارہا ہے لیکن پی ٹی آئی جنرل فیض کی گرفتاری کو فوج کا اندرونی معاملہ دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔