کھیل

پاکستان سپر لیگ زندہ دلان لاہور کیلئے درد سر بن گئی

لاہور میں پاکستان سپر لیگ کھلینے والے کھلاڑیوں کا سیکورٹی پروٹوکول اب عوام کیلئے درد سر بنتا جارہا ہے اور اس پر عوام نے گزشتہ رات ہارن بجا کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ۔

پاکستان سپر لیگ (PSL)  سیزن 10 اس وقت پورے جذبے سے جاری ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی کھلاڑی اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کو سخت سیکورٹی کے حصار میں ہوٹل سے گراؤنڈ اور واپس ہوٹل پہنچایا جاتا ہے۔

جہاں یہ سیکورٹی بین الاقوامی کھلاڑیوں کے حفاظت کیلئے ضروری ہے، وہیں حکومتی سطح پر بہتر پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیکورٹی انتظامات عوام الناس کیلئے اذیت کا سامان بن رہے ہیں۔

لاہور میں پاکستان سپر لیگ کھلینے والے کھلاڑیوں کا سیکورٹی پروٹوکول اب عوام کیلئے درد سر بنتا جارہا ہے اور اس پر عوام نے گزشتہ رات ہارن بجا کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ۔

پاکستان سپر لیگ (PSL) لاہوریوں کیلئے درد سر بن گئی:

گزشتہ شام ٹیمیں جب پریکٹس کے بعد ہوٹل کی طرف روانہ ہوئیں تو رات 30۔7 بجے کے قریب مسلم ٹاؤن موڑ کے قریب ٹریفک کو روک لیا گیا کیونکہ کینال روڈ برج سے ٹیم کا گزرنا متوقع تھا۔

تاہم جب یہ انتظار طویل ہو کر 8 بجے تک پہنچ گیا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا جس پر موٹرسائیکل سواروں اور گاڑیوں میں براجمان افراد نے ہارن بجا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ٹیموں کی نقل و حرکت کیلئے عموماً دو راستے استعمال کئے جاتے ہیں جن میں کبھی لبرٹی مارکیٹ سے گلبرگ کے راستے تو کبھی کینال روڈ سے فیروزپور روڈ ۔

 

مزید پڑھیں: پی ایس ایل بائیکاٹ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟

یہ ایسی شاہراہیں ہیں جہاں ایک دن میں تقریباً 20 گھنٹے ٹریفک کا زور رہتا ہے۔ مزید برآں مسلم ٹاؤن موڑ ایک جنکشن کی طرز پر کام کرتا ہے جو جوہر ٹاؤن ، ٹھوکر نیاز بیگ، ہربنس پورہ ، واپڈا ٹاؤن اور جلو موڑ جیسے گنجان آباد علاقوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اسی طرح یہ بذریعہ فیروز پور روڈ قصور شہر سے بھی ربط قائم کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ٹیموں کے گزرنے کی وجہ سے روڈ کو 10 منٹ سے زائد بند کیا جائے تو شہر میں بدترین ٹریفک جام دیکھنے کو ملتا ہے۔

جوں جوں یہ دورانیہ بڑھتا جاتا ہے، عوام کی تکلیف میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

 

ٹریفک جام کے اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

آجکل دنیا میں جدید ترین سیکورٹی فیچرز جیسا کہ اںٹیلیجنس ٹریفک سسٹم کا استعمال کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ابھی بھی روایتی طریقوں یعنی کہ روڈ کو مکمل بند کر کے سیکورٹی یقینی بنائی جاتی ہے۔

اول تو ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دے کر ایسے ٹریفک جام سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا سسٹم میسر نہیں تو کوشش کی جائے کہ سکول اور دفاتر کی چھٹی کے وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیموں کی آمدورفت کا شیڈول بنایا جائے۔

عوام کو درست طریقے سے ٹریفک بارے معلومات دی جائے تا کہ وہ بروقت متبادل راستوں پر گامزن ہو جائیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قذافی سٹیڈیم کے نزدیک ایک ہوٹل بھی ٹیموں کی رہائش کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس ہوٹل کو جلد از جلد مکمل کر کے مکمل فعال کر کے بین الاقوامی طرز کی سہولیات فراہم کردی جائیں تو یہ بہت کارآمد فیصلہ ہوگا۔

سٹیڈیم کے نزدیک ہوٹل کی تکمیل سے کھلاڑیوں کی سیکورٹی پر خرچ ہونے والی رقم کو بھی بچایا جا سکے گا اور ساتھ ہی عوام الناس بھی سکھ کا سانس لے گی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button