پاکستان میں قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ ایوان زیریں یعنی کہ قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی کے سینیٹ دونوں اس عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔کسی بھی بِل کو قانون بننے کیلئے دونوں ایوانوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب کرانے کے بعد صدر مملکت کو ارسال کیا جاتا ہے۔
اگر صدر مملکت فی الفور اس پر دستخط کردیں تو وہ بِل قانون بن جاتا ہے۔ دوسری جانب صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ بِل کو نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو دوبارہ بھیج دے۔دوبارہ بھیجنے کی صورت میں بِل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا جاتا ہے۔ کوئی بھی بِل 10 دن تک صدر مملکت کے پاس رہتا ہے۔
اگر صدر اس پر کوئی رائے دیئے بغیر اس بِل کو داخل دفتر کردیں تو وہ بِل پارلیمنٹ گزٹ میں شائع ہونے کے بعد خود ہی قانون بن جائے گا۔تاہم پاکستان میں بل منظور ہونے کے بعد اطلاق ہونے کی بجائے گم جاتے ہیں۔کبھی ایوان زیریں میں پیش ہونے کے بعد بِل ایوان بالا تک نہیں پہنچ پاتے۔ کبھی بِل ترامیم اور نظر ثانی کیلئے پارلیمانی کمیٹیوں میں جانے کے بعد دوبارہ منظر عام پر نہیں آتے۔
ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری ایسی شکایت کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبِل سینیٹر عرفان صدیقی نے کوڈ آف کریمینل پروسیجر نامی بِل سینٹ میں پیش کیا جو منظور بھی ہوا مگر واپس کبھی نظر نہیں آیا۔
اسی طرح پی ٹی آئی سے ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بھی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ملازمین کے متعلق بِل پیش کیا جو منظور تو ہوا لیکن صدر مملکت تک نہ پہنچا۔
یہ بات چیئرمین سینیٹ اور قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی نوٹس میں بھی لائے گئی اور کاروائی کی یقین دہائی بھی ہوئی لیکن بے سود۔
مزید پڑھیں: میاں صاحب : الیکشن چھوڑیں پھر ریفرنڈم ہی کرالیں
اسے پارلیمنٹ کے بدترین بے توقیری کہہ لیں کے جس عمل کیلئے عوام اپنے نمائندوں کو چن کر پارلیمنٹ میں بھیجتی اس کام کو ہی مشکوک کر دیا جائے تو عوام کس کے ہاتھ پراپنا لہو تلاش کرے۔
سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش اس عمل میں بہت واضح نظر آتی ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی یہ روایت پاکستان کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔
اب تو بِل ایوان صدر تک پہنچ بھی جائیں تو پھر بھی ان کی حفاظت جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ چند ماہ قبِل صدر مملکت کےاس ٹویٹ نے ہمارے نظام سیاست کے منہ پر زوردار طمانچہ مارا جب عارف علوی نے بتایا کہ کیسے ان کی مرضی کے برخلاف ایک بِل پر سائن ہو گئے اور انہیں علم ہی نہ تھا۔
بظاہر پارلیمنٹ سپرمیسی کی دعویدار سیاسی جماعتوں کی اس معاملے پر خاموشی پارلیمانی نظام کی وقعت کم کرنے کو کافی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اس معاملے پر ایک ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے پاؤں کھینچتے رہیں گے تو کچھ بعید نہیں کے آنے والے دور میں لوگوں کا پارلیمانی نظام سے بچہ کچا اعتبار بھی اٹھ جائے۔