آرٹیکلزاویہ

پاکستانی صحافت کا معیار چیک کیجئے

آپ نے دنیا بھر کی صحافت دیکھی ہوگی لیکن جیسے منفرد سیاست پاکستان میں ہورہی ہے اس کا معیار دیکھ کر انسان سر پیٹنے کو دوڑتا ہے۔ دنیا بھر میں صرف صحافی ہوا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے صحافی ہیں جو ہر دور میں عہدوں پر بھی ہوتے ہیں اور عہدے چھوڑتے ہی دوبارہ صحافی بن کر انہی پارٹیوں کے ترجمان بنے ہوتے ہیں۔
بات یہاں تک بھی رہتی تو پھر بھی قابل برداشت تھا، لیکن یہاں تو طاقتور اداروں کے ترجمان بھی صحافی بنے بیٹھے ہیں جو کہ بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے اسٹیبلشمنٹ کے دفاع کرتے اور انکی پیغام رسانی کرتے رہتے ہیں۔
صحافی منیب فاروق کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کوئی بھی معاملہ ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف دینے پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ روز علی امین گنڈا پور کی جبری گمشدگی کے بعد منیب فاروق نے ایک بیان جاری کیا جس میں انکا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور صاحب گرفتار ہیں یا گرفت میں ہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ کسی سے رابطہ نہیں۔ کہیں جا نہیں سکتے۔ کوئی پتہ نہیں کہاں ہیں۔ بس یہ پتا ہے کہ اس دفعہ زیادہ مشکل میں ہیں۔محسن نقوی صاحب فرماتے ہیں آپ بتائیں کہاں ہیں۔ جناب وہ سجنوں کے پاس ہیں۔ واپس آکر کہیں گے کہ نفلی عبادت میں مصروف تھا۔

مزید پڑھیں:‌صحافیوں کو کام کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیوں کرنا پڑ رہا ہے

اسی طرح غریدہ فاروقی ہوں، سہیل وڑائچ ہوں، وقار ستی ہوں، ابصار عالم ہوں، حسن ایوب ہوں ، نصر اللہ ملک ہوں، عاصمہ شیرازی ہوں، رضوان رضی ہوں، مرتضیٰ سولنگی ہوں الغرض کیا نام لیا جائے جس کی صحافت کے معیار پر نہ رویا جائے۔
صحافیوں کے بھیس میں چھپے ان افراد پر جب مشکل وقت پڑے تو یہ صحافت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ یہ اس صحافت کے معیار کے بعد بھی بضد ہیں کہ انہیں صحافی کہا جائے اور صحافیوں والا پروٹوکول بھی دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے میڈیا چینلز پر ٹاک شو ہوں یا پھر سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار ، انہیں عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ۔ صرف عوامی رد عمل ہی نہیں، ان کے اپنے کولیگ صحافی بھی ان کے طرز صحافت کے مضحکہ خیز ہونے کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button