پاکستان میں اول تو الیکشن جیتنے والوں پر سوالیہ نشان اٹھتے رہتے ہیں جیسا کہ سال 2024 میں ہونے والے الیکشن پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ ایسے ہی الیکشن کے بعد بننے والی حکومت میں وزارتوں کے قلمدان جس طرح بانٹے جاتے ہیں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
پاکستان میں کسی بھی وزارت کو چلانے کیلئے وفاقی وزیر ہوں یا صوبائی وزیر، ان کی اہلیت کیلئے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے قریبی بااعتماد ساتھی ہوں۔ پھر اس کے بعد ان کی من مرضی کے وزارت انہیں سونپ دی جاتی ہے اور نتیجتاً ملک کا نظام سالوں ویسا ہی رہتا ہے۔
پاکستان کی وزیر مملکت برائے آئی ٹی کا حالیہ دنوں دیا گیا بیان آپ کی نظروں سے ضرور گزرا ہو گا جس میں وزیر مملکت شزہ فاطمہ خواجہ فرماتی ہیں کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں انٹرنیٹ کی سپیڈ کے سلو ڈاؤن ہونے کے پیچھے حکومت یا کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے عوام ہے جو وہ پی این کا استعمال زیادہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ان کے اس ایجاد کے بعد پاکستان کی آئی ٹی منسٹر کا انڈین آئی ٹی منسٹر سے موازنہ کیا جارہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ انڈیا ہم سے آئی ٹی میں اتنا آگے ہے۔
مزید پڑھیں:زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بھارتی ڈاکٹر کی آخری خواہش، ڈائری منظرِعام پر
انڈین آئی ٹی منسٹر کا نام اشونی ویشنو ہے جو کہ الیکٹرانک انجینئرنگ میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کیلئے بھی کوالیفائی کیئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے ایم بی اے بھی کر رکھا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی آئی ٹی منسٹر شزہ فاطمہ خواجہ کی تعلیم تو لمز سے ہے لیکن ان کی واحد قابلیت جو کہ اس منسٹری کیلئے ہے وہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی بھانجی ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انڈیا آئی ٹی میں ہم سے کئی آگے ہیں اور ہم اپنے فری لانسرز کو اتنا انٹرنیٹ مہیا نہ کر پارہے کہ وہ دنیا سے پراجیکٹ لے کر پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر لائیں۔