
سال 2020 کی بات ہے کراچی میں خوفناک طیارہ حادثہ ہوا جس میں درجنوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس تھا اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو اس سارے معاملے پر حکومتی مؤقف دینا تھا۔
پچھلی حکومتوں پر ملبہ ڈالنے کی پاکستانی سیاست کے ناسور کے غلبے میں آکر غلام سرور خان نے بیان داغ دیا کہ سول ایوی ایشن کی جانب سے پاکستان کے زیادہ تر پائلٹس کو دیئے جانے والے لائسنس جعلی ہیں۔
وزیر ہوا بازی جوش خطابت میں یہ بھول گئے کہ پچھلی حکومت پر ملبہ ڈالنے کی ان کی اس تقریر کو بین الاقوامی میڈیا پر بھی کوریج ملے گی اور یہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
یہ نقصان دہ ثابت ہوا بھی کیونکہ اس بیان کے بعد کئی ممالک میں پاکستانی ایئر لائنز کو ہوائی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور یورپی یونین نے پاکستانی ایئر لائنز پر یورپ میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ گزشتہ دنوں بھی اس پابندی پر نظر ثانی کی غرض سے یورپی یونین کی ایئر سیفٹی کمیٹی نے رپورٹ مرتب کی جس میں پاکستان پر اس پابندی کو برقرار رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان واٹر بمبار طیارہ کیوں خریدنے جا رہا ہے؟
یورپی یونین کا وفد گزشتہ برس نومبر میں پاکستان آیا اور ایوی ایشن شعبے میں پاکستان کے حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا۔ اس سے قبل 2022 میں بھی یورپی یونین نے پاکستان سے جہاز کے تمام عملے سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا کہا تھا کیونکہ وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے بیان یورپی یونین نے سیریس لیا تھا۔
تاہم یورپی یونین کی ایئر سیفٹی کمیٹی پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہ ہوئی اور پابندی کو فی الحال برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان سے ڈومور کو مطالبہ کیا گیا ہے ۔
پاکستان میں ایوی ایشن کے ماہر نے میڈیا کو بتایا کہ صرف پی آئی اے ہی ڈائریکٹ یورپ تک سفر ممکن بناتی تھی اور یہ فلائٹس پی آئی اے کیلئے زیادہ نفع بخش بھی تھیں جوخسارےمیں ڈوبی قومی ایئر لائن کیلئے آکسیجن کا کام کرتی تھی۔
One Comment