نئی نسل

سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی 108 سیٹوں کیلئے کتنے نوجوان مدمقابل

چند روز قبل پنجاب پبلک سروس کمیشن ( پی پی ایس سی) کی جانب سے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں 108 بھرتیوں کا اعلان کیا گیا۔

پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی پوسٹ کا اعلان ہو جائے تو عوام دھڑا دھڑ اس کیلئے اپلائی کرنے لگتی ہے۔

چند روز قبل پنجاب پبلک سروس کمیشن ( پی پی ایس سی) کی جانب سے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں 108 بھرتیوں کا اعلان کیا گیا۔

پی پی ایس سی کی جانب سے ان پوسٹوں پر مقابلے کیلئے اترنے والے نوجوانوں کے  جاری کردہ اعداد و شمار نے ملک میں جاری بے روزگاری کی لہر کو کھول کر رکھ دیا ہے۔

 

سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی 108 سیٹوں کیلئے کتنے نوجوان مدمقابل؟

 

پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق سوموار پانچ اگست کو اپلائی کرنے کی تاریخ ختم ہونے کے بعد اب تک ان سیٹوں پر اپلائی کرنے والے امیدواروں کی تعداد ایک لاکھ 11 ہزار 323 ہے۔

اگر اپلائی کرنے والوں کو ٹوٹل سیٹوں سے تقسیم کیا جائے تو تقریباً ہر سیٹ کیلئے 1030 امیدوار مدمقابل ہوں گے۔ اس میں کوٹہ سسٹم کی سیٹیں نکال دیں تو مقابلہ اور بھی تگڑا ہو جاتا ہے۔

یہ معاملہ صرف اسی محکمہ تک محدود نہیں۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ہر پوسٹ کیلئے ہی سخت مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ کئی محکموں میں کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی بھرتی کیلئے ٹیسٹ اور دیگر مراحل کو شروع نہیں کیا جاسکا۔

فروری میں الیکشن کی گہما گہمی کے دوران حکومت کی جانب سے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کا اشتہار دیا گیا تھا۔ آج چھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی ان پوسٹ کیلئے ٹیسٹ کا انعقاد ممکن نہی ہو سکا ہے۔

دوسری جانب حکومت نے پی پی ایس سی کے ٹیسٹ کیلئے اپلائی کرنےکی فیس پر بھی پندرہ روپے کا ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اس سے قبل پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی عمومی فیس 600 روپے ہوا کرتی تھی جو کہ اب 615 روپے ہو گئی ہے۔

دیکھنے میں تو یہ پندرہ روپے کی رقم معمولی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی حالیہ پوسٹ کی بات کر لی جائے تو اپلائی کرنے والوں کے حساب سے حکومت کو 16 لاکھ روپے تک کی آمدن ہوئی ہے۔

 

سیاسی عدم استحکام کا نشانہ بننے والی نوجوان نسل:

 

دوسری جانب سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ملک کا پڑھا لکھا طبقہ بری طرح پس چکا ہے۔ حکومتیں سیاسی عدم استحکام کو حل کرنے کیلئے بھی لچک نہیں دکھا رہی ہیں۔

کوئی بھی حکومت جب برسراقتدار آتی ہے تو وہ شروع میں مالی مشکلات اور گزری ہوئی حکومت کے اقدامات کا رونا روتی ہے ۔

بعدازاں جب حکومت کے جانے کا وقت ہوتا ہے وہ پے در پے نوجوانوں کیلئے ملازمت کے مواقع پیدا کرتی ہے تا کہ الیکشن میں اسے سپورٹ حاصل ہو۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہنگامی حالات میں گئی تو اس حکومت سے نوجوانوں کو وہ ریلیف نہ مل سکا جو جاتی حکومت نوجوانوں کو دے کر جاتی ہے۔

اس کے بعد نگران حکومت اور اب نئی حکومت کے سامنے آنے کے بعد سے وہی مالی مشکلات کا رونا شروع ہو چکا ہے۔

اس سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں پی ٹی آئی دور میں گریجویٹ ہونے والے طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد تین سے چار سالوں سے ملازمت کے مواقعوں کی تلاش میں ہے۔

اس عدم استحکام کا نتیجہ اس وقت سامنے آتا ہے جب کسی محکمے میں بھرتی کیلئے اشتہار دیا جاتا ہے۔

محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں ملازمت کی قلیل نشستوں پر نوجوانوں کی بڑی تعداد حالات کی نزاکت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button