ایمان-مزاری

پاکستان میں انسداد دہشت گردی قانون پر نظر‌ثانی کیوں‌ضروری

مشہور وکیل رہنما اور شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری کےکیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی قانون پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔
ایمان مزاری نے روڈ پر موجود ایک بیرئیر ہٹا کر ٹریفک کیلئے بند راستہ کھولا تو ان پر اور انکے شوہر پر دہشت گردی کا پرچہ کٹ گیا۔
آج ایمان مزاری اور ان کے شوہر کوانسداد دہشت گردی عدالت پیش کیا گیا تو اسلام آباد پولیس نے ان کے 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔ جس پر عدالت نے انہیں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے، پاکستان میں انسداد دہشت گردی قانون کو اب باقاعدہ مذاق بنا لیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف جس طرح اس قانون کو استعمال کیا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ احتجاج کرنا جمہوری حق ہے اور اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پولیس قانونی کارروئی کر سکتی ہے ۔ لیکن ہر چھوٹی سی بات پر دہشت گردی کامقدمہ قائم کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ کیا ایسا کرنا دہشت گردی جیسے قبیح عمل کی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:‌سپریم کورٹ‌میں جسٹس منصور کا پلان چلےگا، فل کورٹ کی اندرونی کہانی

ایسے مقدمات میں عدالتوں کو بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔ گزشتہ دنوں بھی جب عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو گرفتار کیا گیا تو وہ احتجاج سے ایک طرف کھڑی تھیں۔ لیکن انہیں دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد کر دیا گیا اور انہوں نے کئی دن کی بے گناہ جیل کاٹی۔
اس حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال کا نوٹس لے۔اے ٹی سیز کو مذاق بنا دیا گیا، کوئی بھی طاقتور کسی سے ناراض ہو تو اسے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے دہشت گردوں کے خلاف ہماری جنگ کو سنگین نقصان پہنچ رہا ہے اور ساتھ ہی دہشت گردی کے قانون کے غلط استعمال کو معمول پر لایا جا رہا ہے، ہماری انسداد دہشت گردی عدالتیں بین الاقوامی سطح پر مذاق بن چکی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں