اہم خبریںپاکستان

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز کا ذاتی وجوہات کی بنیاد پر استعفیٰ

اگرچہ جسٹس عبد العزیز نے اپنے عہدے میں ذاتی وجوہات کو  عہدے سے علیحدگی کی وجہ   لکھا لیکن وکلاء اور کورٹ رپورٹرز کو یہ ذاتی وجوہات ہضم نہیں ہورہیں۔

عدلیہ میں آئے روز کی حکومتی مداخلت پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز میں بہت اضطراب پایا جارہا ہے۔ ایسے میں حکومتی سائیڈ سے کچھ صحافی اور قانون دان یہ مشورے دیتے نظر آتے ہیں کہ جن ججز کو یہ آئینی ترامیم اور پارلیمانی قوانین پسند نہیں آرہے وہ استعفیٰ دے دیں۔
لیکن دوسری طرف ایک رائے یہ آتی ہے کہ ججز کو سسٹم کے اندر رہ کر مزاحمت کرنی چاہیے۔ ایسے میں جب کوئی جج سسٹم میں رہتے ہوئے حق کیلئے لڑنے کی بات کرے تو یہ صحافی اور قانون دان ان کے خلاف ریفرنس آنے کی خبریں دینے لگ جاتےہیں۔
ایسے میں ججز میں پایا جانے والا یہ اضطراب اب سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اور نئی تقرر و تبادلوں سے بھی عدلیہ میں کئی اندرونی معاملات پر اختلافات پیدا ہونے لگے ہیں۔
انہیں اختلافات کے درمیان میں لاہور ہائیکورٹ سے ایک بڑا استعفیٰ آگیا۔

چالیس ہزار کیس نمٹانے والے جسٹس چوہدری عبدالعزیز کا استعفیٰ

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چوہدری عبد العزیز مستعفیٰ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ مجھے نومبر 2016 میں لاہور ہائیکورٹ میں تقرر کیا گیا تھا اور تب سے میں ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوں۔

مزید پڑھیں: جسٹس منصور علی شاہ کو چھٹی نہ مل سکی

جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے لکھا کہ اس دورانیے میں تقریباً چالیس ہزار کیسز نمٹائے لیکن اب ذاتی وجوہات کی بنیاد پر میں بطور جج کام جاری نہیں رکھ سکوں گا، اس لئے آئین کے آرٹیکل 206 کی شق 1 کے تحت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔

وکلاء اور صحافیوں کو دال میں کالا نظر آنے لگا:

اگرچہ جسٹس عبد العزیز نے اپنے عہدے میں ذاتی وجوہات کو  عہدے سے علیحدگی کی وجہ   لکھا لیکن وکلاء اور کورٹ رپورٹرز کو یہ ذاتی وجوہات ہضم نہیں ہورہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل رہنما سعید احمد بھالی نے لکھا کہ ایک ایک کرکے قابل اور آزاد منش جج مستعفی ہورہے ہیں یا اُن کو کھڈے لائن لگا دیا گیا جبکہ حکومت اور مقتدرہ اپنے ہینڈ پکڈ لوگوں کو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں جج لگا رہی ہے جو سو فیصد ناجائز حکومت کی امیدوں پر پورا اُتررہے ہیں، افسوس در افسوس۔

صحافی مریم نواز خان نے لکھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج چوہدری عبدالعزیز نے سال 2021 میں بھی اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے استعفی دیا تھا، تاہم استعفی منظور نہیں کیا گیا تھا،آج پھر ذاتی وجوہات پر فرائض سرانجام نا دینے کی وجہ سے استعفی دے دیا اور جلد منظور کرنے کی درخواست کی ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button