
16 ستمبر 2023 کو مانچسٹر کے ٹیمسائیڈ ہسپتال میں طبی غفلت کا افسوسناک مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔
44 سالہ پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر سہیل انجم جو کہ پیشہ کے اعتبار سے اینستھیزیا کے ڈاکٹر تھے اپنی ڈیوٹی پر مامور تھے۔
اس وقت پانچ آپریشن طے تھے لیکن تین مریضوں کو اینستھیزیا دینے کے بعد ڈاکٹر سہیل نے چھوٹا سا وقفہ لینے کا تقاضا کیا۔
انہوں نے اپنی ساتھی نرس کو ڈیوٹی پر مامور کیا اور خود بریک پر چلے گئے۔
بریک کی غرض سے جانے والے ڈاکٹر سہیل ایک الگ تھیٹر میں چلے گئے اور وہاں وہ ایک نرس کے ساتھ جنسی تعلق میں مصروف ہو گئے۔
نرس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے والے ڈاکٹر کیسے پکڑے گئے؟
مریض کو دوران آپریشن چھوڑ کر جنسی تعلق میں مبتلا ہونے والے ڈاکٹر اس وقت پکڑے گئے جب ان کی ساتھی نرس کچھ سامان لینے کیلئے کمرے میں داخل ہوئی۔
نرس نے ڈاکٹر سہیل اور ایک اور نرس کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا تو وہ فوراً وہاں سے چلی گئیں۔
وقفے کے تقریباً 8 منٹ بعد ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گئے اور مریضوں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔
ڈاکٹر کو آپریشن چھوڑ کر جنسی تعلق میں مبتلا دیکھنے والی خاتون نے یہ معاملہ اپنے لائن منیجر کو رپورٹ کیا۔
یوں یہ معاملہ ہسپتال سے ہوتا ہوا جنرل میڈیکل کونسل تک جا پہنچا۔
یہ معاملہ ٹربیونل کی کارروائی تک محدود رہتا لیکن اچانک دو سال بعد یہ کیس دوبارہ مںظر عام پر اس وقت آیا جب ڈاکٹر کے خلاف "فٹنس ٹو پریکٹس” کی سماعت شروع ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ آج کل سوشل میڈیا کی زینت بناہوا ہے اور پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر پر لعن طعن کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈاکٹر کی غفلت سے مریض پر کیا اثر پڑا؟
اگرچہ ڈاکٹر مریضوں کو پروسیجر کے دوران چھوڑ کر چلے گئے تھے، خوش قسمتی سے اس دوران مریضوں کوکسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔
مریضوں کو نقصان نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیس اب دیوانی مقدمات کی طرز پر نہیں لڑا جارہا۔ تاہم ڈاکٹر کو ریگولیٹری کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت کیس ٹربیونل میں زیر سماعت ہے اور آنے والے چند ہفتوں میں اس کیس کا فیصلہ متوقع ہے۔
ٹربیونل کی کارروائی کیا ہے، اور ڈاکٹر سہیل انجم کا استدعا کیا ہے؟
اس وقت ٹربیونل میں جاری کارروائی میں ڈاکٹر سہیل کی جانب سے برطانیہ میں پریکٹس کی بحالی کیلئے مقدمہ زیرِ بحث ہے۔
اس سے قبل ڈاکٹر نے ٹربیونل کے سامنے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں چھوڑ کر جنسی تعلق قائم کرنے کے عمل کو انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے ندامت کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے اپنی طاقت غلطی کے دفاع میں لگانے کی بجائے عدالت کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقین سے معافی مانگ لی تھی ۔
فروری 2024 میں ڈاکٹر سہیل برطانیہ سے واپس پاکستان آ گئے تھے اور اب یہاں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
ٹربیونل میں انہیں "فٹنس ٹو پریکٹس” کی کارروائی کا سامنا ہے۔ اس میں کمیشن یہ فیصلہ کرے گا کہ کیا اس غفلت کے بعد ڈاکٹر سہیل انجم برطانیہ میں پریکٹس کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں: برف کے پہاڑ سے 28 سال بعد درست حالت میں لاش برآمد
واقعہ کا محرک کیا تھا؟
ڈاکٹر سہیل کی جانب سے عدالت میں اس واقعہ کی وضاحت پیش کرتے ہوئے چند ذاتی صدموں کا ذکر کیا گیا تھا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جنوری 2023 میں ان کی چھوٹی بیٹی کی قبل ازوقت پیدائش اور بیوی کی تکلیف دہ ڈیلیوری کی وجہ سے انہیں اپنی اہلیہ سے جڑنے میں مشکل کا سامنا تھا۔
انہوں نے ٹربیونل کو بتایا کہ ان حالات کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت پر برا اثر پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے ان سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔
انہوں نے استدعا کر رکھی ہے کہ انہیں غلطی سدھارنے کا موقع دیتے ہوئے برطانیہ میں دوبارہ پریکٹس کی اجازت دی جائے۔
کیا ڈاکٹر سہیل کو دوبارہ پریکٹس کی اجازت ملنی چاہیے؟
یہ معاملہ چونکہ ابھی زیر سماعت ہے اور فیصلہ بھی جلد متوقع ہے تو اس لئے اس کی قانونی حیثیت پر فی الوقت رائے نہیں دی جاسکتی۔
تاہم واقعہ اور ان کی دوبارہ پریکٹس کرنے دینے کی استدعا کو اخلاقی پیمانوں پر پرکھا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر سہیل کی پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کی بات کر لی جائے تو اینستھیزیا کی فیلڈ غیر معمولی کنٹرول کی مانگ کر تی ہے کیونکہ ڈاکٹر کی چھوٹی سی غلطی مریض کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔
اس میں جسمانی اور جذباتی طور پر کمزور شخص یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ اس مشکل فریضہ کو سرانجام دے سکے۔
ٹربیونل کے سامنے یہ اعتراف کہ وہ اپنی جذباتی حالت پر قابو نہ رکھ سکے، ڈاکٹر نے خود ہی اپنی قابلیت پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔
تاہم کمیشن تمام تر معروضی حالات کا خیال رکھتے ہوئے اس بارے جو فیصلہ جاری کرے گا وہ ڈاکٹر سہیل کی پیشہ ورانہ زندگی کی سمت طے کرے گا۔
اگر انہیں برطانیہ میں پریکٹس کی اجازت نہیں ملتی تو یہ سوال بھی ضرور اٹھے گا کہ کیا وہ پاکستان میں پریکٹس کرنےکے اہل ہیں یا نہیں۔