عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ 5 اگست 2023 کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں گرفتاری کے بعد عمران خان اب سائفر کیس میں پابند سلاسل ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کے مطابق ان پر 200 کے قریب مقدمات درج ہیں، یوں ان کا لمبے عرصے تک جیل سے باہر نکلنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
جیل جانے سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی کے مخالفین خود بھی اور اپنے جیسا نقطہ نظر رکھنے والے دانشوروں اور صحافیوں کے ذریعے کہتے رہتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے عمران خان میں جیل کاٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
عمران خان ناقدین کی اس تنقید کا جواب تو کئی ماہ سے جیل کاٹ کر دے رہے ہیں۔ لیکن ان کے مخالفین شاید تاریخ کا ریکارڈ درست نہ ہوتے ہوئے ان کی اس قید کو بھلائے بیٹھے ہیں جو انہوں نے 2007 میں کاٹی۔
یہ نومبر 2007 کے دن تھے جب ججز بحالی اور پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹانے کی تحریک زوروں پر تھی۔ ایسے وقت میں عمران خان اور انکی پارٹی بھی اس تحریک میں پیش پیش تھی۔
اس تحریک کو کچلنے کیلئے جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ ان ہنگامی حالات میں تمام اپوزیشن قائدین کو پابند سلاسل کرنے کے احکامات تھے۔
اپنی کتاب ” میں اور میرا پاکستان ” میں چیئرمین پی ٹی آئی لکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے تمام قائدین جیل کو گھروں میں نظر بند رکھنے کے احکامات تھے۔ تاہم انہیں ایک اخبار نویس کی کال موصول ہوئی جنہوں نے بتایا کہ خان صاحب آپ کو جیل میں رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں :عمران خان کی کتاب” میںاور میرا پاکستان”
اس وقت بھی عمران خان اپنی جان بارے انہی خطرات کا اظہار کرتے تھے جیسے آج کر رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان نے کافی دن گرفتاری سے بچنے کے بعد 14 نومبر 2007 کو پنجاب یونیورسٹی میں گرفتاری دینے کا پلان بنایا۔
چیئرمین پی ٹی آئی لکھتے ہیں کہ ان کی سیاسی حلیف اسلامی جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے اس گرفتاری میں حکومت کی مدد کی۔ حالانکہ اس تحریک میں جماعت اسلامی بھی باقی پارٹیوں کے ساتھ تھی۔
عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی میں بین الاقوامی میڈیاکے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک لوگوں نے دھکے دے کر گاڑی میں ڈالا۔ بعدازاں انہیں پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
عمران خان کو ابتدائی طور پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید رکھا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے بقول وہاں انہیں کچھ سہولیات بھی میسر تھیں اور عملہ بھی محبت سے پیش آتا تھا۔
لیکن اس گرفتاری نے ملک میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ لوگ احتجاج کو نکل آئے تھے۔ شاید یہی بات طاقت کے ایوانوں کے پسند نہ آئی تھی۔
یوں عمران خان کو نومبر کے ایک سرد رات میں اچانک ڈیرہ غازی خان کی بدنام زمانہ جیل میں بھیجنے کے احکامات آگئے۔ عمران خان کے بقول نومبر کی سرد رات کے آخری پہر انہیں ایک ٹرک کے پچھلے حصے میں بٹھا کر لے جایا گیا۔
اس قید میں عمران خان کو اذیت دے کر توڑنا مقصود تھا۔ اپنی کتاب میں چیئرمین پی ٹی آئی اس قید کو اچھا تجربہ نہیں کہتے۔ حالات اس حد تک تھے کہ عمران خان کو قید کے چھٹے روز بھوک ہڑتال کرنا پڑی۔ بالآخر انہوں نے آزادی پائی۔
یوں اس دور کی قید اور آج کی جیل میں کافی چیزیں مشترک ہیں لیکن اب چیئرمین پی ٹی آئی کا امتحان زیادہ ہے۔ اس وقت یہ جیل چند دن کی تھی اب کئی ماہ ہوگئے اور آگے بھی لمبے عرصے تک آزادی ملنا مشکل نظر آرہا ہے۔
اس وقت بھی دہشت گردی جیسے الزامات تھے لیکن اب غداری جیسے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت قریبی ساتھی ہر قدم ساتھ تھے، اب ہر روز درجنوں ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔
تب سیاسی حریف بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے لیکن اب صرف نشانہ عمران خان اور انکی پارٹی ہے۔ لیکن تمام تر حالات کے باوجود جو بات چیئرمین پی ٹی آئی کا حوصلہ باندھے ہوئے ہے وہ ان کی بے پناہ مقبولیت ہے۔
خان صاحب نے اب کتنے عرصے تک جیل میں رہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن یہ طے ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے ناقدین کی تمام تر پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کر رکھا ہے۔
“نومبر 2007:جب عمران خان پہلی بار جیل گئے” ایک تبصرہ