
ظہران ممدانی رواں سال نومبر میں امریکہ میں ہونے والے میئر کے الیکشن کیلئے نیویارک سٹی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوتے ہیں تو وہ نیو یارک پولیس کو آرڈر کریں گے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نیویارک میں قدم رکھیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے۔
انہوں نے اپنے اس بیان کے دفاع میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف وارنٹ گرفتاری کو بطور جواز پیش کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔
تاہم ظہران ممدانی کی جانب سے اس اعلان کے بعد ایک زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔
یہ بحث جس سوال کے گرد گھوم رہی ہے وہ کچھ یوں ہیں؛ کیا ایک ریاست کے میئر وفاق کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو گرفتار کر اسکتے ہیں؟
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری:
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے 21 نومبر 2024 کو جنگی جرائم کے ارتکاب پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔
عدالت نے یہ احکامات روم اسٹیٹیوٹ سے حاصل ہونے والے اختیار سے کئے ہیں جو عالمی عدالت کو نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم پر کارروائی کا مینڈیٹ مہیا کرتا ہے۔
تاہم امریکہ اور اسرائیل اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے ۔
عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے والے تقریباً 125 ممالک ہیں جن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتے ہیں کہ وہ اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
تاہم عدالت کا یہ ماننا ہے کہ اس کے رکن ممالک میں سے کسی کے خلاف اگر کسی غیر رکن ملک کا شہری جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو عدالت وارنٹ جاری کر سکتی ہے۔
اسرائیل کے کیس میں بات کر لی جائے تو فلسطین انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرتا ہے۔ یوں وارنٹ گرفتاری جاری ہو سکتے ہیں۔
لیکن کیا امریکہ ان پر عملدرآمد کا پابند ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔
کیا ظہران ممدانی اسرائیلی وزیر اعظم کو گرفتار کرا سکتے ہیں؟
امریکہ کے آئین کے مطابق وفاق کو ریاستوں پر فوقیت حاصل ہے۔ نیشنل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات وفاق کے کنٹرول میں آتے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری پر عمل کرانے کیلئے امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا ریاستی ایجنسیاں کارآمد ہو سکتی ہیں۔
لیکن اول تو امریکہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کو ہی تسلیم نہیں کرتا اور دوسری طرف امریکہ اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل کا بڑا اتحادی ہے۔
یوں ظہران ممدانی کی جانب سے یہ احکامات کارآمد نہ ہوسکیں گے۔ مقامی پولیس کو عالمی عدالت کے وارنٹ پر عملدرآمد کیلئے احکامات جاری کر کے ممدانی امریکی آئین سے انحراف کریں گے۔
دوسری جانب یہ خارجہ پالیسی کے رائج بین الاقوامی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ جس میں کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ۔
سوچ اچھی پر عملدرآمد مشکل:
ظہران ممدانی کی جانب سے جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھنا ان کے بطور لیڈر قانون کی حکمرانی کیلئے اچھی کوشش تصور کی جاسکتی ہے۔
تاہم امریکہ میں رہتے اور ایک اہم ریاست کے میئر ہوتے ہوئے وہ ان احکامات پر عملدرآمد نہیں کرا پائیں گے۔
تاہم ایک اہم امریکی ریاست کے میئر کے امیدوار ہوتے ہوئے ان کے خیالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اسرائیل کے صفِ اول کے اتحادی امریکہ میں بھی اسرائیل کے جنگی جرائم کو کس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس بیان کے بعد اگر ظہران ممدانی میئر منتخب ہوتے ہیں تو یہ اسرائیل کیلئے واضح پیغام ہو گا کہ اگرچہ قانونی سطح پر ممکن نہ ہو، لیکن امریکہ میں بھی ان کے جنگی جرائم کے مرتکب وزیراعظم کے خلاف کارروائی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔