دینی مدارس بند کرنے کے احکامات جاری

انڈیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقے اترپردیش کی الہ آباد کورٹ نے دینی مدارس بند کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے تمام بچوں کو روایتی سکولوں میں داخل کرنے کے احکامات دے دیئے ہیں۔ الیکشن سے قبل اس اقدام سے مسلمانوں کیلئے بھارتی زمین مزید تنگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور یہ اس طرف بھی اشارہ کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کی بہتر پوزیشن میں ہونے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور انکی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کیلئے حالات کچھ بہتر نہیں ہونے والے ہیں۔
انڈیا ایک سیکولر ریاست کے طور پر کام کرتی ہے، جس پر عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس سے متعلق 2004 پر عمل کرنےسے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اسلیئے قانون منسوخ کیاجاتا ہے۔ عدالت نےریاست کو بھی احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ یقینی بنایا جائے کہ 6 سے 14 سال تک کی عمر کے بچوں کو ریاست کے تسلیم شدہ تعلیمی اداروں میں داخل کرایا جائے۔
مزید پڑھیں: سنہری دور: جب مسلمانوں نے یورپ کو کاغذ سے متعارف کرایا
مذہنی رہنماؤں کا کہنا ہےکہ مسلمانوں کیلئے یہ فیصلہ قابل عمل نہیں ہے کیونکہ مدارس میں اسلام کی دینی تعلیم دی جاتی جبکہ روایتی تعلیمی اداروں میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے ایک ہی طرز کا نصاب ترتیب دیا گیا ہے۔
ریاست اترپردیش میں مدارس کو کنٹرول کرنے والے ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ سے 27 لاکھ طلبہ اور 10 ہزار کے قریب اساتذہ متاثر ہونگے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ مدارس بند کرنے کے حوالے سے ابھی تک عدالت نے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تاہم مدارس کو فوری طور پر بند کیئے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مودی کے گزشتہ دو ادوار حکومت میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم اترپردیش کے بی جے پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ مدارس کے خلاف نہیں جبکہ اس کے برعکس وہ مسلمان بچوں کے تعلیم کے حوالے سے کوشاں ہیں اور فکر مند بھی ہیں۔
One Comment