
وفاقی حکومت نے تین صوبوں کے گورنر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی گزشتہ روز ملاقات ہوئی۔
ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے گورنرز کو تبدیل کیا جائے گا جبکہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری برقرار رہیں گے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی نے پنجاب کے لیے سردار سلیم کو نامزد کرنے کی درخواست کی جسے تسلیم کر لیا گیا ۔اس کے علاوہ ن لیگ کی جانب سے اپنے سینیئر رہنما جعفر مندوخیل کو گورنر بلوچستان لگانے کی منظوری ہوئی۔
اس موقع پر سب سے معنی خیز تعیناتی گورنر خیبرپختونخوا کی تھی کیونکہ اس وقت یہ واحد صوبہ ہے جو حکمران اتحاد کے پاس نہیں ہے۔ اس کے لیے پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فیصل کریم کنڈی کا چنا گیا۔ فیصل کریم کنڈی کی تعیناتی اس بات کا پیغام ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ آنے والے دنوں میں مفاہمت کی پالیسی اپنائی جائے گی۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رہنما اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے سربراہ پرویز خٹک کا نام گورنر خیبرپختونخوا کیلئے گردش کر رہا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وفاق کے پی کے ساتھ ٹکراؤ کے لہجےسے باہر آنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: آصف علی زرداری صدر کی عہدے سے مستعفیٰ
اپنے طرز سیاست میں پیپلز پارٹی اور فیصل کریم کنڈی ایسے ٹکراؤ کے حامی تو نہیں رہے ہیں تاہم ابھی ان کے بارے کچھ میں اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا کیونکہ اس سے قبل نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے نامزد ہونے والے محسن نقوی بھی آصف علی زرداری کے دست راز سمجھے جاتے تھے۔
تاہم ان کے دور میں پی ٹی آئی کو بری طرح کچلا گیا۔ یہی نہیں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی وضع دار سیاست دانوں میں شمار ہوتے تھے لیکن عہدہ ملنے پر انہوں نے پی ٹی آئی سے انتقامی سیاست جاری رکھی۔
تاہم اب نئے گورنر فیصل کریم کنڈی کی نامزدگی سے جس نے پرویز خٹک کا راستہ روکا پی ٹی آئی کیلئے اچھا پیغام ہے۔ کیا اس میں وفاقی حکومت کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو ویسا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسا اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیر اعظم تعیناتی سے دیا گیا؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ ممکنہ صورت ہو سکتی ہے۔
One Comment