بشریٰ بی بی اس وقت ایک تھکا دینے والے سفر کے بعد قافلے کے ساتھ ڈی چوک اسلام آباد موجود ہیں۔ انہوں نے علی امین گنڈا پور کے ساتھ ایک طویل سفر کیا اور راستے میں چھوٹے چھوٹے خطاب سے کارکنان کا حوصلہ بڑھاتی اور احتجاجی پالیسی واضح کرتی رہیں۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پرامن احتجاج کے ساتھ عمران خان کو لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
یہ بشریٰ عمران کی سیاست کی پہلی لائیو اننگز تھی جس میں انہوں نے ایک بڑے قافلے کو لیڈ کیا۔ لیکن اس سارے سفر میں انہوں نے کارکنان سے جتنی گفتگو کی اس میں کہیں وہ رونا دھونا شامل نہ تھا جو تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف کی تقریروں سے ملتا ہے۔
قائد ن لیگ میاں محمد نواز شریف کو جب موقع ملے وہ مجھے کیوں نکالا کی گردان شروع کرتے ہیں اور نوے کی دہائی سے اب تک جب جب انہیں نکالا گیا اس کے رونے دھونے کرتے رہتے ہیں۔
اس سے قطع نظر کے وہ ملک میں ہیں یا بیرون ملک، وہ اپنی ہر تقریر میں میرے ساتھ یہ ہوا، میرے ساتھ وہ ہوا کی روداد سناتے نہیں تھکتے۔
میاں صاحب یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ ایک لیڈر مشکلات سے ہی لڑ کر اپنا سیاسی قد مزید لمبا کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کے قریبی ساتھی کی آرمی چیف اور چیف جسٹس سے مداخلت کی اپیل
ایک اچھے سیاسی لیڈر کو جب موقع ملے وہ قوم کے سامنے ویژن رکھتا ہے جسے قوم فالو کرتی ہے اور اگر وہ لیڈر برسراقتدار نہیں تو اس کو اقتدار میں لانے کیلئے جدو جہد شروع ہو جاتی ہے۔
اگرچہ ابھی حال ہی میں بشریٰ عمران کئی ماہ کی جیل صرف اس جرم میں کاٹ کر آئی ہیں کہ وہ عمران خان کی بیوی ہیں ، لیکن خلاف حیاء کیسز بننے کے باوجود بھی کارکنان سے خطاب میں انہوں نے اپنی مشکلات کا رونا رونے کی بجائے شرکاء کو حوصلہ بڑھائے رکھا۔
ان کا پہلی سیاسی اننگز میں اتنا شاندار کھیلنا سیاست کے تین بار کے وزیراعظم کیلئے پیغام ہے کہ رونے دھونے کی سیاست کو عوام میں پذیرائی نہیں ملتی۔ عوام صرف ویژن کی طرف دیکھتی ہے۔
ف