انسان یہ بات کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ساری زندگی میں خالص دودھ تک رسائی اس کو اپنی زندگی کے ابتدائی دو سال میں ماں کے دودھ کی صورت میں ہی ملے گی۔ اس کے بعد پوری زندگی ملنے والے دودھ کے خالص ہونےپر وہ شک کرتے ہی گزر جائے گی۔
سلمان آصف صدیقی ایک ایجوکیشنل سائیکالوجسٹ اور بچوں کی تربیت سے جڑے عوامل کے ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ نومولود بچہ اور ڈبے کے دودھ کے سوال کے جواب میں سلمان آصف صدیقی کہتے ہیں کہ آج کل لوگ بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کے حق میں بہت سی تاویلیں دیتے ہیں کہ سر یہ مسئلہ ہے وہ مسئلہ ہے۔ سلمان صدیقی کہتے ہیں کہ جب ڈبے کا دودھ ایجاد نہیں ہوا تھا تو بھی بکری کے دودھ میں پانی مکس کر کے بچے کو پلایا جاتا تھا۔
سلمان آصف صدیقی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بعض اوقات خواتین نومولو بچے کو ماں کا دودھ نہ پلانے کیلئے صحت اور دوسرے مسائل بیان کرتی ہیں۔ لیکن انہیں یہ تحقیق ضرور کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ نے ایک ایسا نظام رکھا ہے کہ جب بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے تو اللہ اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ بچے پالنے کی جو روایتی حکمت تھی وہ آگے منتقل نہیں ہوئی۔ بلکہ اب تو حالات یہاں تک آ چکے ہیں کہ لوگ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ڈے کیئر یا کوئی میڈ مل جائے تو بچے کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔ چند ماہ کے بچے کو ڈے کیئر کے سپرد کر کے خود بری الذمہ ہو جانا زیادتی کا عمل ہے جو بچے کی تربیت میں کئی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔
مزید پڑھیں:ہسپتال میںآگ لگنے سے 10 نوزائیدہ بچے جاںبحق، درجنوںزخمی
سلمان آصف صدیقی کے مطابق ہم نے ماں کے دودھ کو صرف ایک ڈرنک تک محدود سمجھ رکھا ہے جس کا متبادل دے کر ہم سمجھتے ہیں کہ کام ہو گیا۔ حالانکہ بات اس کے برعکس ہے۔
بچہ جب ماں سے جڑ کر دودھ وصول کرتا ہے تو اس کی ایموشنل ضروریات پوری ہوتی ہیں، وہ محفوظ محسوس کرتا ہے، اسے بھروسہ ملتا ہے اور ماں کا یقین اور اعتماد بچے کے اندر منتقل ہوتا ہے۔ اس لئے ڈبے کا دودھ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
تاہم اگر ماں کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے تو بچے کو رضاعی ماں کا دودھ پلانا دوسرا آپشن ہے۔ اگر یہ سہولت بھی میسر نہ آئے تو بچے کے دودھ میں پانی ملانا کر بچے کو پلانا ایک پرانا طرز عمل رہا ہے۔ الغرض بچے کو ڈبے کے دودھ کے سپرد کرنا بالکل آخری آپشن ہونا چاہیے۔