پاکستان

نعیم بخاری اور قاضی فائز عیسیٰ‌میں‌تلخ جملوں کا تبادلہ

پی ٹی آئی کے وکلاء اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک عام تاثریہ پایا جاتا ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران وہ پی ٹی آئی کے وکلاء کی سرزنش کرتے رہتے ہیں اور انہیں بولنے بھی نہیں دیتے، تاہم کسی بھی اور پارٹی کے وکلاء کو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان پرباقاعدہ معاونت کا الزام بھی لگتا ہے۔
مبارک ثانی کیس کے دوران بھی کورٹ رپورٹرز نے بتایاکہ جونیئر ججز چیف جسٹس کے سامنے اونچی آواز میں بات کر رہے تھے لیکن وہ انہیں چپ کرانے سے قاصر تھے۔ لیکن اسی کیس کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل رہنما لطیف کھوسہ کے دوران ان کے ساتھ تو تو میں میں ہوئی۔
آج بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی پی ٹی آئی وکیل رہنما نعیم بخاری سے تلخ جملوں کا تبادلہ میڈیا پر رپورٹ ہوا۔ نعیم بخاری یوں تو ہنس مکھ وکیل ہیں اور ایک کیس کی لائیو سماعت کے دوران دیکھا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے وہ ہنستے ہنستے اپنے دلائل دے رہے تھے ، تاہم آج سپریم کورٹ میں نعیم بخاری بھی اپنا آپا کھو بیٹھے۔

مزید پڑھیں:‌قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹنشن دینے والی آئینی ترمیم کا کیا بنا

صحافی مغیث علی نے رپورٹ کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نعیم بخاری میں تلخ جملوں کا تبادلہ۔ ایک موقع پر نعیم بخاری نے ریمارکس دیئے کہ 1954 میں کیا ہوتا رہا؟ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہماری پیدائش سے پہلے کے معاملات پر ہم پر اُنگلی نہ اٹھائیں۔
اس پر نعیم بخاری غصے میں آگئے اور کہا کہ آپ سمجھتے ہیں آواز اُونچی کر کے مجھے ڈرائیں گے، میں ڈرنے والا نہیں، آپ نے خود بھٹو کیس میں سب لکھا کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button