مولانا فضل الرحمان پاکستان کی آواز بن گئے

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں علمائے کرام کا ایک وفد 3 جنوری کو افغان دارالحکومت روانہ ہونے والا ہے۔ کابل کے ایک معتبر ذرائع نےاس دورے کی تصدیق کی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ اور دفتر خارجہ نے مختلف ملاقاتوں کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے، جس میں بنیادی طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مسئلے کو حل کرنے اورپاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ اس حکمت عملی میں پاکستان اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے مذہبی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھانا شامل ہے۔
توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں مذہبی اسکالرز ٹی ٹی پی کے نمائندوں کے ساتھ مختلف معاملات پر نجی گفتگو کریں گے جس کیلئے فریم ورک ترتیب دیا جا چکا ہے۔وفد میں خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی سمیت مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام شامل ہوں گے۔ تاہم، اس بات کا امکان ہے کہ ملک میں انتخابی عمل میں کم وقت ہونے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان اپنی شرکت سے معذرت کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا سے مولانا فضل الرحمان کا عمران خان کو سرپرائز

دسمبر کے شروع میں مولانا فضل کو افغان حکومت نے کابل کے سفر کی دعوت دی تھی۔ افغان حکومت کی طرف سے باضابطہ دعوت نامہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ کو افغان سفیر نے پہنچایا، جس نے ان سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ جے یو آئی-ف کے ترجمان نے بتایا کہ مولانا فضل نے دعوت قبول کر لی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان جاری تناؤ پاکستان کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے سرحد پار سے بار بار حملوں سے پیدا ہوا ہے۔ڈی آئی خان میں 12 دسمبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد جس کے نتیجے میں 23 فوجیوں کی شہادت ہوئی تھی، پاکستان نے کابل سے شدید احتجاج درج تھا۔ یہ واقعہ ایک دہائی میں سب سے مہلک حملہ تھا۔
افغان طالبان کے کئی ارکان، بشمول سرکاری اہلکار، جے یو آئی-ایف کے زیر انتظام مدارس سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا قیاس ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جے یو آئی-ایف کے سربراہ کے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اس سے قبل، جے یو آئی-ایف کے سربراہ نے امن معاہدے پر بات چیت کی امریکی کوششوں کے دوران افغان طالبان رہنماؤں سے بات چیت کے لیے قطر کا دورہ کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں