منگل 3 دسمبر اور بدھ 4 دسمبر کی درمیانی شب جنوبی کوریا میں ایک حیران کن عمل دیکھنے کو ملا جب صدر یون سوک یول نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کردیا۔
تاہم عوام اور اپوزیشن نے اس پر بھرپور مزاحمت کی اور صرف چند گھنٹوں میں عوام کے شدید احتجاج اور اسمبلی میں مارشل لاء کے خلاف قرارداد منظور ہونے کے بعد بالاآخر چند گھنٹوں کے بعد جنوبی کوریا کے صدر کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ کر مارشل لاء کے نفاذ کا فیصلہ واپس لے لیا۔
تاہم اس کے بعد ان کے مواخذے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ جس پر ووٹنگ ہونا تھی لیکن اس سے قبل صدر نے مارشل لاء کے نفاذ پر مانگ لی لیکن وہ اپنے عہدے سے مستعفیٰ نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ان کی مواخذے کی تحریک پیش کی گئی جس میں توقع کی جارہی تھی کہ صدر کا مواخذہ ہوگا۔ صدر کے مواخذے کیلئے پارلیمانمیں دو تہائی اکثریت چاہیے ہوتی ہے۔
یوں آج جب اس پر ووٹنگ ہوئی تو سرپرائز ملا کیونکہ جنوبی کوریا کے صدر صدر یون سوک یول کی پارٹی پیپلز پاور پارٹی نےسرے سے ووٹنگ کا ہی بائیکاٹ کر دیا جس کی وجہ سے مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو سکی اور یوں صدر فی الوقت مواخذے سے بچ گئے ہیں۔
مزید پڑھیں:جنوبی کوریا؛ عوام نے مارشل لا چند گھنٹوں میںاڑا کر رکھ دیا
صدر کے مواخذے کی تحریک ناکام ہونے پر مظاہرین بھی دل برداشتہ ہوئے جو ایک بڑی تعداد میں پارلیمنٹ کے باہر پہنچ چکے تھے۔
پولیس ان مظاہرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ جبکہ منتظمین احتجاج یہ تعداد دس لاکھ بتاتےہیں۔
تحریک کے ناکام ہونے کے بعد مظاہرین میں شریک کئی افراد رو بھی پڑے اور اتنی بڑی سطح پر عوام کے نکلنے کے باوجود بھی اس موقع پر حکومتی جماعت نے بائیکاٹ کر کے مواخذے کی تحریک کو ناکام بنا دیا۔ لیکن صدر اور ان کی پارٹی اس وقت عوام میں وہ مقبولیت کھو چکے ہیں جو وہ پہلے رکھا کرتے تھے۔