لاقانونیت کے دور میں قانون کا پرچار کرنے والا میاں علی اشفاق

پاکستان میں گزشتہ دو سال سے جاری لاقانونیت سے کون واقف نہیں ہے۔ آئین و قانون کی سر عام دھجیاں اڑتی دیکھ کر کسی بھی محب وطن پاکستانی کا قانون پر سے اعتماد ہی اٹھ جاتا ہے۔ قوموں کو جب ایسا مسئلہ درپیش ہو تو ایسے مایوسی کے دور میں امید کی ایک کرن چاہیے ہوتی ہے جو ان محب وطن لوگوں کا ایک بار پھر قانون پر اعتماد بحال کرتی ہے۔
پاکستان میں لاقانونیت کے اس دور میں قانون کا پرچار کرنے والا کوئی شخص دیکھنا ہے تو میاں علی اشفاق سے ملیں۔ وکالت کی دنیا میں تو وہ کوئی سالوں سے اپنے جوہر دکھا رہے ہیں لیکن وہ میڈیا کی زینت اس وقت بنے جب پہلے بار صحافی عمران ریاض خان کو گرفتار کیا گیا۔
عمران ریاض کو گرفتار کر کے پورے ملک میں پے در پے جعلی ایف آئی آرز درج کر کے گھمایا گیا۔ میاں علی اشفاق دوست تھا اور دوست بھی مصیبت میں کام آنے والا۔ سو اپنی تمام مصروفیات کو ایک سائیڈ رکھ کر میاں علی اشفاق جس شہر میں ایف آئی آر درج ہوتی، پہنچتے بری کرواتے اور نئے شہر کو چل دیتے۔
دوسری بار ان کی قابلیت تب دیکھنے کو ملی جب عمران ریاض کو اغوا کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اب کی بار مدمقابل خفیہ ادارے تھے لیکن قانون کا پرچار کرنے والا میاں علی اشفاق پھر بھی پہنچا تو عدالت پہنچا۔
عدالت سے کہا مجھے میرا بھائی بری کرادیں۔ اس دوران قوم کو دعاؤں اور حوصلے کاکہتا رہا۔ عمران ریاض کی دنیا سے گزر جانے کی خبریں دینے والوں کے منہ میں خاک، ایک دن پھر تصویر سامنے آئی ایک نحیف لیکن جذبے سے بھرپور عمران ریاض کی اور اس کے گال پر بوسہ دینے والا میاں علی اشفاق۔
حوالے تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن جن کے ساتھ زیادہ ظلم ہوا ہو ان کا حوالہ دے کر ہی بات کر لی جائے تو سمجھ آئے گا کہ لاقانونیت کے دور میں قانون کا پرچار کرنےوالا علی اشفاق آج بھی عدالتوں سے اتنا پر امید کیوں ہے۔
مزید پڑھیں: صنم جاوید کیسز؛ کب کیا ہوا
اب کی بار مؤکل ٹھہری چودہ ماہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی صنم جاوید۔ ایک کے بعد ایک گرفتاری۔ یہاں تک کے اب پنجاب میں مقدمے بنانے والوں کو سمجھ آنا بند ہوگیا تھا کہ کس کیس میں گرفتار کیا جائے۔
سو اب کی بار وفاقی ادارے سامنے آئے اور ایف آئی اے نے صنم جاوید کو اپنامہمان بنا لیا۔ عدالت لگی ایک گھنٹے سے زائد کے دلائل ہوئے اور قانون کا پرچار کرنے والا علی اشفاق صنم جاوید کو ساتھ لیکر روانہ ہو گیا۔
پولیس پھر گرفتار کرنے کو آئی۔ ایک موقع تھا کہ پچھلے دروازے سے صنم کو بھگا کر خیبرپختونخوا بھیج دیا جائے لیکن نہ صنم جاوید کو یہ پسند آیا کہ وہ چودہ ماہ جیل رہنے کے بعد چند گھنٹے مزید جیل میں رہ لے اور نہ میاں علی اشفاق تھا کہ بس کردو بھائی اور کتنے کیس کرو گے۔
پولیس کے حوالے کیا اور آج اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گیا۔ معاملہ فہمی سے بات اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے رکھی اور پھر اپنی گاڑی میں صنم جاوید کو لیکر روانہ ہوگیا۔ لاقانونیت منہ تکتی رہی، قانون پر عمل کرنے والا جیت گیا۔