لاہور ہائیکورٹ بار کے ملازم خالد نے جمعرات کے روز خودکشی کی تھی ان کی وفات کے بعد تہلکہ خیز انکشافات سامنے آرہے ہیں جو اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں لاہور ہائیکورٹ بار کے ملازم کی خودکشی دراصل قتل ہے۔
تفصیلات کے مطابق خالد پانچ بچوں کے باپ تھے جنہیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی تھی۔ خالد کے ساتھی ملازمین نے بتایا کہ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ یوٹیلٹی بلز نہیں دے پارہے تھے اور کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا تھا ، جبکہ وہ دکانوں سے ادھار سامان لے کر گزار کر رہے تھے۔
ان حالات کی وجہ سے ان کی بیوی بھی چھوڑ کر چلی گئیں تھیں جس کے بعد خالد نے تنگ آکر خود کشی کر لی۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے ملازم کی خودکشی کو ایسے معاملات سامنے آنے کے بعد قتل قرار دیا جا رہا ہے۔
ایڈوکیٹ ہائیکورٹ ملک پرویز اقبال اموی کا کہنا ہے کہ خالد نے خودکشی نہیں کی، اِس کا قتل ہوا ہے اور اِس کے قاتل وہی لوگ ہیں جنہوں نے اِسے تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی تھی۔
مزید پڑھیں: 5 لوگوں کی قاتل خاتون کو بچانے کا عمل شروع
ملک پرویز اقبال کا کہنا تھا کہ اگر آپ لوگ بار کا خیال نہیں رکھ سکتے تو الیکشن کیوں لڑتے ہو کروڑوں روپے لگا کے الیکشن لڑ لینے ہیں لیکن بار کے غریب مزدوروں کو تنخواہ نہیں دینی۔
ایڈوکیٹ پرویز اقبال کاکہنا تھا کہ خالد کی خودکشی نے بہت تکلیف دی ہے۔ اِتنا خدمت گزار اور عاجز بندہ ہماری کوتاہی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
صحافی اجمل جامی کا کہنا تھا کہ بے حسی ہے، یعنی اسی بار کے سالانہ انتخابات میں کروڑوں روپے لُٹائے جاتے ہیں۔ مگریہی بار تین ماہ سے اپنے ملازم کو تنخواہ نہ دے سکی۔ پیسے کی کمی تھی یا انسانیت کی؟ اجمل جامی نے مزید کہا کہ لاہور بار پر لعنت بے شمار۔ کوئی تو منصف ہوگا جو اس بار کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔