ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف کے 300 کے قریب مقبول رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور کئی اضلاع میں سرے سے کوئی جانا پہچانا نام پارٹی میں باقی نہیں رہا، ایسے حالات میں بھی عمران خان اپنی پارٹی کو پوری اہمیت دے رہے ہیں۔
ایسے حالات سے دوچار کسی سیاسی جماعت کو اگر الیکٹیبلز میسر آئیں یا کسی اور جماعت سے ناراض امیدوار تو وہ پارٹی اسے کھلے دل سے قبول کرے گی۔
صرف یہی نہیں اگر اس پارٹی کے پرانے امیدوار ایک بار پھر سے پارٹی سے اختلافات بھلا کر آنے کی پیشکش کریں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف ایسا کرنے کی بجائے ابھی بھی لوگوں کو شامل کرنے میں محتاط ہورہی ہے۔
عمران خان کی ہدایت پر گزشتہ روز پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان نے ایک نوٹیفکیشن نکالا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی رضامندی سے ہی نئے امیدوار پارٹی میں شامل ہو سکیں گے۔
9 مئی کے بعد پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن شروع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں رہنما پارٹی چھوڑ گئے۔ کسی نے سیاست سے توبہ کر لی تو کوئی استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہوگیا۔کسی رہنما نے پریس کانفرنس کی تو کسی نہ ٹی وی انٹرویو دیا۔ رہ جانے والے امیدوار یا تو جیلوں میں ہیں یا انڈر گراؤنڈ۔
ایسے میں دیکھا گیا کہ پی ٹی آئی کے کئی نئے چہرے سامنے آئے اور دنوں میں ہی مقبول ہو گئے۔ شیر افضل مروت اس کی شاندار مثال ہیں۔ آج سے چند ماہ قبل انہیں کوئی جانتا نہیں تھا لیکن آج وہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر ہیں۔
ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں پر ایسے مشکل حالات آتے رہے ہیں تاہم حالات بہتر ہونے کے بعد وہ پارٹیاں دوہری طاقت سے واپس آئی ہیں۔ ایسے میں اس پارٹی کو مصلحت کے تحت چھوڑ جانے والے کئی امیدواروں کو واپسی کا موقع ملتا ہے اور کسی پر پارٹی کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے جاتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں باتیں زبان زد عام ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جانے والے سرکردہ رہنما دوبارہ واپس آئیں تو کیا عمران خان انہیں پارٹی میں قبول کریں گے؟
ان تمام رہنماؤں کے چھوڑ جانے کے بعد کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کو دوبارہ واپس لیا جائے گا یا نہیں۔ گزشتہ دنوں سابق گورنر پنچاب چوہدری محمد سرور نے دوبارہ پی ٹی آئی کو جوائن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: اسد عمر نے بھی تحریک انصاف کو سرخ جھنڈی دکھادی
تاہم چوہدری سرور کی اس خواہش پر عمران خان نے سختی سے منع کر دیا ہے۔ چوہدری سرور نے ایسے وقت میں پارٹی چھوڑی جب پی ٹی آئی پر ایسا مشکل وقت نہیں تھا۔
اسی طرح اسد عمر نے بھی 9 مئی کے بعد کچھ بیانات اور انٹرویوز میں ایسی باتیں کر دیں جو عمران خان کو پسند نہ آئیں ۔ اسد عمر نے بارہا واپسی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن عمران خان نے انہیں دوبارہ ویسے نہ لیا۔ یوں اسد عمر کی واپسی مشکل نظر آتی ہے۔
علی نواز اعوان پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما تھے اور انہوں نے عمران خان سے اپنی گرفتاری پیش کرنے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں گرفتاریاں دینی چاہیں اس سے پہلے کے ہمیں غائب کرا کے بیانات لے لیئے جائیں۔
علی نواز اعوان کو عمران خان نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ یوں جب کچھ دن بعد انہیں غائب کیا گیا تو وہ واپس استحکام پاکستان کی دفتر سے برآمد ہوئے اور شمولیت کا اعلان کر دیا۔تاہم عمران خان نے ان کے بارے کسی بھی طرح کا بیان دینے سے روک دیا۔ ایسے میں اگر وہ دوبارہ واپس آنا چاہیں تو شاید عمران خان انہیں ویلکم کریں۔
فواد چوہدری بظاہر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے تھے تاہم ان کی پی ٹی آئی کے ساتھ ہمدردی کے پیش نظر انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ممکن ہے انہیں بھی دوبارہ ویلکم کر لیا جائے۔
پریس کانفرنس کرنے کے ساتھ عمران خان پر ذاتی حملے کرنےوالوں جیسا کہ فرخ حبیب کو دوبارہ چانس ملتا نظر نہیں آرہا۔