Psl-bycott

کیا پی ایس ایل کا بائیکاٹ مؤثر رہا؟

جاوید اقبال ایک نیم سرکاری محکمے میں آفیسر ہیں۔ وہ ہر سال پی ایس ایل کے میچز دیکھتے ییں۔ نہ صرف وہ یہ میچ دیکھتے ہیں بلکہ بھائی اور کزنز کے ساتھ مل کر ایونٹ کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپس میں ٹیمیں بانٹ لیتے ہیں۔ یوں ایک میچ کرکٹ گراونڈ میں چل رہا ہوتا ہے اور دوسرا ان کےبھائیوں اور کزنز کے درمیان۔
تاہم رواں سال ہونے والے پی ایس ایل کا انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ مشہور بین الاقوامی فوڈ چین کے ایف سی کے آفیشل اسنیک پارٹنر ہونے کے اعلان کے بعد ہی ملک بھر میں فلسطینی عوام سے یکجہتی سے پیش نظر نہ صرف ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ ہوا بلکہ لوگوں نے اپنے ملک کے سب سے بڑی ایونٹ کا بھی بائیکاٹ کر دیا۔
جاوید اقبال کاکہنا ہے کہ اب کی بار انہیں ایونٹ ختم ہونے کے اگلے دن فیس بک کی ایک پوسٹ سے پی ایس ایل کے اختتام پذیر ہونے کا پتہ چلا۔ ان کےکزنز اور بھائیوں نے بھی پی ایس ایل کا بائیکاٹ کیا۔
راشد الفاروقی ایک نجی کالج کے پروفیسر ہیں۔ انہیں کرکٹ کا بہت شوق رہا ہے اور وہ خود بھی کھل کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اکثر پی ایس ایل کے میچز کے دوران ان کا جوش دیدنی ہوتا ہے جب وہ اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے لائیو آکر میچز کے بارے میں کمنٹری بھی کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کرکٹ ٹیم فوج کے حوالے

تاہم اس سال انہوں نے پی ایس ایل کا بائیکاٹ کیا۔ اس سال ان کی کوئی کمنٹری کی ویڈیو بھی سامنے نہ آئی۔ تاہم ایونٹ کے اختتام پر چند کھلاڑیوں نے فلسطینی جھنڈے اوڑے تو انہوں نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا کہ ٹورنامنٹ کے اختتام پر جب KFC کے ساتھ معاہدہ ختم ہو گیا سب کی جیبیں اور پیٹ بھر گئے، تب فیس سیونگ کے لئے اس طرح کا ڈرامہ رچا لیا گیا۔ اور اس سے پہلے مجال ہے کسی ایک پلیئر کو بھی ہمت ہوئی ہو فلسطین کا نام تک لینے کی اگر کسی نے لیا ہو تو مجھے بتا دیں تاکہ میری اصلاح ہو جائے۔معصوم عوام خوش ہو رہی ہے کہ جیت بھائیوں کے نام کر دی حالانکہ معاہدہ ختم ہو گیا اب کوئی ان کا نقصان نہیں جو پہلے تھا۔
رواں سال ہونے والا ایونٹ پچھلوں سالوں کی نسبت کم دیکھا جانے والا ایونٹ تھا جس میں گراونڈز بھی کافی خالی نظر آئے اور سوشل میڈیا پر بھی ویسی کمپین دیکھنے کو نہ ملی جیسے پہلے ملا کرتی تھی۔ یوں پی ایس ایل کا بائیکاٹ کافی حد تک مؤثر رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں