بطور میزبان آپ کی بہترین مہمان نوازی یہ ہے کہ آپ کا مہمان جلد از جلد پر سکون محسوس کرنے لگے۔ یہ پرسکون ہونے کا احساس اتنا بہترین ہو کہ مہمان خود کو مہمان تصور نہ کرے اور ریلیکس ہو جائے۔لیکن جدید معاشرے میں ایسا ہونا ناممکن سا ہو گیا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مہمان نوازی کو تکلف سے جوڑ دیا ہے۔ پرتکلف ہونے کی یہ عادت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بعض اوقات اب قریبی خونی رشتے یعنی کہ سگے بہن بھائی بھی ایک دوسرے کے گھر جاتے ہوئے کھانے کے اوقات میں نہ جانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ اہتمام کی اس حد تک چلے جائیں گے جس میں تکلف اور تصنع شامل ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مہمان کا خیال رکھنے میں کوئی کسر چھوڑی جائے لیکن اگر آپ تکلف میں اس حد تک گزر جائیں کہ مہمان پرسکون ہونے کی بجائے پریشان ہو جائے تو یہ اچھا طرز عمل نہیں ہے۔
اب صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بعض اوقات لوگ بطور مہمان اپنے لئے ہونے والے انتظامات کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ اب جب یہ ہمارے پاس بطور مہمان آئیں گے تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔
مزید پڑھیں:گریڈ 17 کے افسران سے ڈاکیومنٹس کی تصدیق ختم کرنا کیوں ضروری
یہاں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مقصد مہمان کو پرسکون کرنا ہے ناں کہ اسے ایمریس یعنی کہ متاثر کرنا۔ اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو تکلف کے بغیر بھی مہمان نوازی ممکن ہے۔ لیکن اگر مقصد ایمریس کرنا ہو تو پھر تکلف کے بغیر مہمان نوازی کا تصور بھی ممکن نہیں۔
یہی قانون تحفہ دینے پر بھی لاگو ہوتا ہے جہاں ہمارا یہ خیال کے برانڈ کی چیز بطور تحفہ دینی چاہیے، تحفہ وصول کرنے والے کو نئی مشکل میں ڈال دیتی ہےاور اب اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ مجھے بھی اتنی حیثیت کا تحفہ دینا ہوگا۔
اگرچہ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے لیکن محبت تحفہ دینے والے کیلئے بڑھنی چاہیے ناں کہ تحفے اور برانڈ کی محبت بڑھنی چاہیے۔ ایک ایسا دور کہ جب ہم اپنے گھریلو خرچے پورے کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مہمان نوازی بنا تکلف کے بھی ممکن ہے۔