کیا ہمارے اشیاء‌کے بائیکاٹ سے اسرائیل کو فرق پڑتا ہے؟

حال ہی میں، میکڈونلڈز پاکستان نے خود کو اس وقت شدید تنقید اور بائیکاٹ کی زد میں پایا جب فاسٹ فوڈ چین کی اسرائیلی فرنچائز نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی فوج کو ہزاروں پیکٹ مفت کھانا دے رہی ہے۔ اس اعلان نے نئی بحث کو چھیڑ دیا کہ کچھ برانڈز غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی کے لیے مجرم ہیں۔
اس کے بعد مسلم ممالک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں خصوصاً اسرائیل ساختہ مصنوعات کی بائیکاٹ کی تحریک نے جنم لیا۔ تحریک پاکستان ، ترکیہ اور مصر جیسے ممالک میں زور پکڑ رہی ہے۔سعودی عرب، قطر، ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے صارفین نے ایسے برانڈز کو مسترد کر دیا ہے جو مبینہ طور پر فلسطینیوں کے خلاف مظالم میں شریک ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر مختلف برانڈز جیسے ڈومینوز، کیریفور، میکڈونلڈز، کوکا کولا اور پیپسی کو کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی گئی ہے۔
کچھ ریٹیل اسٹورز، جیسے کراچی میں امتیاز سپر اسٹور چین، نے ان چیزوں کو ڈسپلے شیلف سے اٹھالیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اسرائیلی مصنوعات ہیں یا اسرائیلی کمپنیوں سے منسلک کمپنیوں کی مصنوعات ہیں۔ اسی طرح مقامی ریسٹورنٹس نے پیپسی اور کوکا کولا جیسے مشروبات کو اپنے مینو سے ہٹا دیا ہے۔

بائیکاٹ کیوں کیا جاتا ہے؟

جب کسی ریاست یا کارپوریشن کو اپنا موقف تبدیل کرنے کی بات آتی ہے تو بائیکاٹ ایک مقبول انتخاب رہا ہے۔ مسلم دنیا میں بائیکاٹ کا ایک واقعہ2005 میں سامنے آیا جب ڈنمارک کے ایک اخبار نے ایک متنازعہ کارٹون شائع کرنے کا فیصلہ کیاجس کے بعد مسلم دنیا نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔
ہارورڈ بزنس ریویو کے مطابق، بائیکاٹ کے موثر ہونے کے لیے، انہیں ان چار عوامل کو پورا کرنا ہوگا: گاہک مکمل رضامندی سے اس کا حصہ ہیں۔ بائیکاٹ میں شرکت کی قیمت کم ہے۔ مسائل کو سمجھنا آسان ہے۔ ذرائع ابلاغ کا صحیح استعمال کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دنیا

کیا بائیکاٹ واقعی موثر ہے؟

یہاں تک کہ اگر موجودہ منظر نامے میں ان عوامل کو پورا کیا جاتا ہے، کسی کو بائیکاٹ سے اسرائیل کی معیشت کو نقصان پہنچانے یا براہ راست اس کے موقف میں تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے- کیونکہ اسرائیل نے اس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے اپنی تیاری ظاہر کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اشیائے خوردونوش سے زیادہ اپنی تکنیکی برآمدات پر انحصار کرتی ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اسرائیلی معیشت کو آج بائیکاٹ سےکم خطرہ ہے جتنا کے آغاز میں تھا۔


ماہر معاشیات اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کے مطابق، اسرائیل سافٹ ویئر، اسپائی ویئر، ڈرون اور فوجی گولہ بارود کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ کوئی بھی ملک جو ان سے خریدے گا ان کا بائیکاٹ نہیں کرے گا، وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کے خلاف ووٹ دیں گے لیکن وہ کبھی ان کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔
پیسہ اور جنگ ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جہاں جنگ ہوتی ہے، وہاں پیسہ کمانا ہوتا ہے۔” انہوں نے یوکرین پر روس کے حملے اور اس حقیقت کی مثال دی کہ یورپ کی گیس پر انحصار کی وجہ سے روس پابندیوں کو برداشت کرنے کے قابل تھا۔ “پیسہ سب سے طاقتور نظریہ ہے۔ جب پیسے کی بات آتی ہے تو لوگ اپنے کسی بھی عقیدے سے سمجھوتہ کرتے ہیں۔
لیکن اس کا دوسرا رخ بھی ہے۔ یہاں تک کہ اگر بائیکاٹ ریاست کی معیشت یا کسی کمپنی کی فروخت کو براہ راست خطرہ نہیں بناتے ہیں، تب بھی وہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان عدم اطمینان پیدا کرتے ہیں۔اور ایسے میں سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری سے ڈرتے ہیں۔
مزید برآں مسلم ممالک کا ملٹی نیشنل کمپنیوں پر انحصار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی سے ان کمپنیوں کی مصنوعات نکال دیں تو ہمارے پاس دالیں، چاول اور کچھ اشیائے خورد و نوش کی اشیاء بچتی ہیں۔
اس بائیکاٹ کو اگر ہم اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور اپنی مقامی مصنوعات کو اپنا لیں تو یقیناً کچھ سالوں میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ ہمارے بائیکاٹ سے یہود کو فرق پڑے گا۔ ایسا کرنے سے ہمارا اپنی معیشت بھی مضبوط ہوگی جو اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے۔

کیا ہمارے اشیاء‌کے بائیکاٹ سے اسرائیل کو فرق پڑتا ہے؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں