عمران خان کے خلاف بنائے گئے کیسز میں سرکار کی جانب سے سب سے تگڑا کیس سائفر کیس بتایا جاتا ہے۔ اس کیس میں سزائے موت اور عمر قید جیسی دفعات بھی شامل ہیں۔ تاہم آج سپریم کورٹ سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں ضمانت ملنے کے ساتھ ساتھ ایسے ریمارکس بھی سامنے آئے جنہوں نے بظاہر اس مضبوط کیس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
ضمانت کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔
سینئر صحافی اور کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے ضمانت کیس کے فیصلے کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت کیس کے فیصلے میں لکھا کہ 14 سال قید اور سزائے موت کے ثبوت موجود ہیں اسلیئے ضمانت نہیں بنتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ 14 سال قید یا سزائے موت کا کیس بنتا ہی نہیں۔ یہ دو سال کی سزا کا کیس ہے اس لیئے ضمانت دی جاتی ہے۔
بظاہر یہ ضمانت کا کیس تھا لیکن اس دوران دیئے گئے ریمارکس نے سائفر کیس کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔ عدالت نے اس حوالے سے ایک اہم آبزرویشن یہ بھی دی کہ عمران خان تک سائفر پہنچا ہی نہیں۔ ان کے پاس ڈی کوڈڈ مراسلہ بھیجا گیا جسے سائفر نہیں کہا گیا۔
اعظم خان کا بیان جس کی بنیاد پر اس پورے کیس کو چلایا جا رہا ہے عدالت نے اس حوالے سے سوال پوچھا کہ کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کرائی گئیں؟ جس پر پراسیکوشن نے نفی میں جواب دیا۔ سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ کیا اعظم خان کو شمالی علاقہ جات لے جایا گیا۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اعظم خان کے بیان کو اغوا برائے بیان قرار دیا۔
عدالت نے کیس کے اندارج میں 17 ماہ کی تاخیر پر بھی سوال اٹھائے۔ سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ اگر سائفر گم ہو گیا تھا تو سلامتی کونسل کے دو اجلاسوں میں شہباز شریف نے کیوں نہیں بتایا۔ شہباز شریف نے کس دستاویز پر سلامتی کونسل کا اجلاس کیا تھا۔
مزید پڑھیں: لال مسجد پر ایک بار پھر آپریشن کی گونج
عدالت نے پراسیکوٹر رضوان عباسی سے سوال کیا کہ یہ کیس سزائے موت کا کیسے ہے۔ اس بارے قانون پڑھیں۔ جس پر رضوان عباسی کترا رہے تھے۔ عدالت میں قانون پڑھا گیا جس کے مطابق کسی ملک کو سیکرٹ دیا گیا ہو یاکسی اور ملک کو فائدہ پہنچایا گیا ہو تو یہ دفعات لگتی ہیں۔
اس پر راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ اس پر انڈیا میں تماشا لگا ہوا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کے تماشا ہوا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کل جو بلوچ فیملیز کے ساتھ ہوا اس پر کچھ تماشا نہیں بنا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ضمانت کیس میں اضافی نوٹ بھی لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ جیل میں بیٹھے شخص ایک بڑی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے؟انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہر دور میں سیاسی رہنماوؤں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کسی آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر نے تو آج تک ایک دن جیل نہیں کاٹی۔
عمران خان کے وکلاء ٹیم سے ابوذر سلمان نیازی کا کہنا تھا کہ آج کی سپریم کورٹ سماعت کے بعد یہ واضح ہے کہ ٹرائل خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ میرٹ پر یہ کیس زیرو ہے۔
سپریم کورٹ کی آج کی سماعت کے بعد بظاہر ہائی پروفائل بنا کر پیش کیئے گئے اس کیس میں کچھ باقی نہیں رہا۔