قائد-اعظم-وفات

کیا بانی پاکستان کو مارا گیا تھا؟

11 ستمبر قائد اعظم کے یوم وفات کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1948 میں جہاں ایک طرف بے سرو سامانی کے عالم میں پاکستان کشمیر کے معاملے پر حالت جنگ میں تھا تو وہیں دوسری جانب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح شدید بیمار ہو گئے۔ لیکن ان کی یہ بیماری بھی بطور گورنر جنرل انکو پاکستان کی خدمت کرنے سے نہ روک سکی۔
ایک طرف ملک بے سرو سامانی کی حالت میں تھا تو دوسری طرف 70 لاکھ مہاجرین کا بوجھ بھی بیمار قائد کے کاندھوں پر تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مشکلات کا انبار تھا لیکن حوصلےجوان تھے کیونکہ قائد بھلے بیمار سہی زندہ تھے۔
تاہم قائد کے ساتھ جو آخری لمحات میں ہوا وہ کچھ اچھا نہ تھا۔ ہوا کچھ یوں کے قائد اعظم اپنے آخری ایام میں بلوچستان کے شہر زیارت سے کراچی لایا گیا۔ قائد جب ایئر پورٹ پر اترے تو بیماری سے نڈھال تھے۔ ایسے میں انہیں پروٹوکول دینے کی بجائے ایک کھٹارا سی ایمبولینس بھیج دی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ایمبولینس میں ساتھ کوئی نرس نہ تھی ۔لیکن اس بارے متضاد رائےملتی۔
ستم ظریفی یہ کے یہ ایمبولینس قائد اعظم کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچانے سے پہلے خراب ہو گئی۔ اور دوسری ایمبولینس آنے میں ایک گھنٹے تک کا وقت گزر گیا۔ بیمار قائد کیلئے کراچی کے گرم موسم میں شدید بیماری میں خراب طبیعت کے ساتھ گزرنے والا یہ گھنٹہ بہت کٹھن تھا۔
اس دوران محترمہ فاطمہ جناح ان پر پنکھا جلتی رہیں۔ اس حالت کو اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ بانی پاکستان اس رویے کے حقدار نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: جب ایک آرمی سربراہ نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کیا

اسے آپ ابلاغ کا فقدان کہہ لیں لیکن کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان قائد اعظم کی واپسی سے آگاہ ہی نہیں تھے۔ ایک عذر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بے سرو سامانی کے عالم میں گھرے ملک کے اس وقت کے دارلحکومت کراچی کےپاس دو ہی ایمبولینس تھیں جن میں سے ایک قائد اعظم کیلئے بھیج دی گئی۔
لیکن بہت سے لوگ اسے بانی پاکستان کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں اور آج بھی بہت سے لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قائداعظم مرے نہیں انہیں مارا گیا تھا۔قائد اعظم کے آخری وقت میں ان کے پاس انکے ذاتی معالج اور محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ وہاں موجود لوگوں کے بقول قائد اعظم نے اللہ پاکستان کے الفاظ کہے اور جان اللہ کے سپرد کر دی۔قائد اعظم کی وصیت کے بقول ان کا جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔ ایک اندازے کے مطابق قائد اعظم کے جنازے میں 6 لاکھ افراد نے شرکت کی۔
قائد اعظم کی موت طبعی تھی یا انہیں کسی سازش کے تحت موت کے منہ میں دھکیلا گیا یہ بات آج بھی معمہ ہے۔ لیکن لوگوں کی ایک اکثریت تسلیم کرتی ہے کہ قائد کی موت طبعی نہیں تھی۔ خراب ایمبولینس کا بھیجا جانا اور سرکاری سطح پر پروٹوکول نہ ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قائداعظم کو جس جہاز میں لایا گیا اور جس سلنڈر سے آکسیجن دی گئی اس میں آکسیجن کم تھی۔ ایمبولینس میں نرس کے ہونے یا نہ ہونے بارے بھی متضاد رائے دیکھنے کو ملتی ہیں۔
الغرض یہ کہ قائد کی موت جن حالات میں ہوئی اور انکے علاج معالجے میں جو کوتاہی برتی گئی ، قائد اعظم اس رویہ کے حقدار نہ تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں