
صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں زمین کے تنازع پر شروع ہونے والی لڑائی چھ روز سے جاری ہے جس میں اب تک 42 افراد کے قتل ہونے اور 200 کے قریب افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
کرم قبائلی علاقہ جات میں آتا ہے جہاں ایسی لڑائیاں عموماً ہوتی رہتی ہیں لیکن اب کی بار حالات بہت کشیدہ ہو گئے ہیں اور اب اموات کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
واقعے پر حکومت کی جانب سے کوششوں کے بعد گزشتہ روز جنگ بندی ہو گئی تھی۔ اس وقت ہلاک افراد کی تعداد 35 اور زخمیوں کی تعداد 150 تک بتائی گئی تھی۔تاہم پولیس ذرائع کے مطابق رات گئے دوبارہ فائرنگ شروع ہوئی ہے اور اب تک 42افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ 200 کے قریب افراد زخمی ہیں۔
قبائلی اضلاع میں لڑائی کا اصول ہے کہ دوران لڑائی بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس لئے مرنے والے تمام افراد مرد ہیں لیکن زخمیوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: ارشد شریف ملک چھوڑ کر کیوں گئے تھے، دو سال بعد سراغ مل گیا
ڈی پی او کا کہنا ہے کہ قبائلی عمائدین کی مدد سے جنگ بندی کردی گئی ہے اور اب پولیس کوشش کر رہی ہے کہ دونوں جانب بنکروں اور خندقوں کو خالی کر کے خود حفاظتی کنٹرول سنبھالے۔
دوسری جانب ایک مقامی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ملک شہزاد آفریدی نے ایکس اکاؤنٹ پر اپڈیٹ دیتے ہوئے بتایا کہ مام فریقین کو سیز فائر پر آمادہ کردیا گیا ہے۔ آئندہ چند گھنٹوں میں پورے ضلع کرم میں سیز فائر کیا جائے گا، ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود کا دعوی۔فریقین کے درمیان جاری جھڑپوں میں اب تک 44 افراد جاں بحق اور 175 زخمی ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب شہریوں کی جانب سے صوبائی حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ 40 سے زائد افراد کے قتل پر ان کی طرف سے ایکشن نظر نہیں آیا۔